پیغمبر کے وہ اصحاب جو (احکام شریعت ) کے امین ٹھہرائے گئے تھے وہ اس بات سے اچھی طرح آگا ہ ہیں کہ میں (علی ع)نے کبھی ایک آن کے ليے بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی نہیں کی اور میں نے اس جوانمردی کے بل بوتے پر کہ جس سے اللہ نے مجھے سرفراز کیا ہے پیغمبر کی دل و جان سے ان موقعوں پر مدد کی جن موقعوں پر بہادر (آنکھ بچا کر) بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور ان کے قدم (آگے بڑھنے کی بجائے) پیچھے ہی ہٹتے جاتے تھے۔پس جب رسول نے رحلت فرمائی تو ان کا سر (اقدس )میرے سینے پرتھا اور جب میرے ہاتھوں میں ان کی روح طیب نے مفارقت کی تو میں نے (تبرکاً) اپنے ہاتھ منہ پر پھیر ليے۔میں نے ہی آپ کے غسل کا فریضہ انجام دیا۔اس عالم میں کہ ملائکہ میرا ہاتھ بٹا رہے تھے۔(آپ کی رحلت کے وقت) گھر اور اس کے اطراف و جوانب نالہ و فریاد سے گونج رہے تھے اور ایک گروہ نازل ہو رہا تھا اور ایک واپس جارہا تھا جو حضرت پر نماز پڑھتے تھے اور ان کی دھیمی آوازیں برابر میرے کانوں میں آرہی تھیں۔ یہاں تک کہ میں نے ہی آپ(ص) کو قبر میں اتارا ، تو اب ان کی زندگی میں اور موت کے بعد مجھ سے زائد کون ان کا حق دار ہو سکتا ہے ؟ (اب جبکہ میرا حق تمہیں معلوم ہوچکا )تو تم بصیرت کے جلو میں دشمن سے جہاد کرنے کے ليےصدق نیت سے بڑھو۔اس ذات کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں،بلاشبہ میں جادہ حق پر ہوں اوروہ (اہل شام) باطل کی ایسی گھاٹی پر ہیں کہ جہاں سے وہ پھسلے کہ پھسلے۔ میں جو کہہ رہا ہو ں وہ تم سن رہے ہو میں اپنے اور تمہارے ليےاللہ سے آمرزش کا طلب گار ہوں۔(نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۵)
خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے درمیان عظیم تعلق اور رشتہ کا سبب صرف نبوت اور امامت کا سرچشمہ ایک ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ آپ دونوں کے درمیان ایک عظیم روحانی تعلق اور رشتہ بھی موجود تھا جو آپ دونوں کے یک جان دوقالب ہونے کا واضح ترین سبب تھا ، قرآن کریم اس عظیم روحانی اشتراک اور تعلق کو کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (الِ عمران:۶۱)
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
بلا شک وشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کے درمیان یہ رشتہ اور رابطہ ایک تکاملی روحی پر مبنی رشتہ تھا، اس مطلب پر گزشتہ آیات قرآنی بھی دلالت کرتی ہیں، پس یہ سارے حقائق بتاتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی کے درمیان موجود یہ روحانی اور فکری تعلق اور ہم آہنگی درحقیقت نبوت اورامامت کے تکامل کے لیے ایک مقدمہ تھا۔ کیونکہ اس تعلق اور رابطہ کے بارے میں مولیٰ کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں: کہ میرا رشتہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسا تھا جیسے ایک ہی جڑ سے نکلے ہوئے دو کھجور کے درختوں کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے جیسے ہاتھ کا بازو سے ہوتا ہے۔ صنوان سے مراد دو ایسی کھجوریں جن کی جڑ یں ایک ہوں۔ یہ مثالیں ان دو ہستیوں کے درمیان موجود عظیم رشتہ اور تعلق کو واضح کرتی ہیں۔
یہ رشتہ اور تعلق چند اہم چیزوں پر مبنی ہے جن کو اجمالا اور مختصرا ذیل میں بیان کیا گیا ہے:
پہلی صورت
بنیاد اوراصل ایک تھی، اسی وجہ سے مراحل کے مختلف ہونے کے باوجود دونوں ہستیوں کا منھج اور روش ایک تھی، نبوت اور امامت دونوں کمال کے اعتبار سےبے مثل تھیں، بلکہ نبوت اور امامت کو ہاتھ اور بازو سے تشبیہ دینا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ذات گرامی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمؤمنین علیہ السلام میں جدائی نہیں ہے، یعنی دوسرے الفاظ میں نبوت اور امامت میں انفکاک نہیں ہے یہ دونوں ان کھجورکے دو درختوں کی طرح ہیں جن کی جڑیں ایک ہیں۔
دوسری صورت
بتحقیق وہ علاقہ اور رشتہ جس کا امام علی علیہ السلام نے قصد کیا، وہ رشتہ صرف اس معنیٰ میں منحصر نہیں ہے کہ امامت نبوت کے تکملہ ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ امامت، نبوت کے لیے تکملہ ہونے کے ساتھ ساتھ امام علی علیہ السلام مسند نبی اور نبوت پر تشریف فرما بھی ہوتے تھے اور نبوت اور رسالت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی امام علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ السلام کے معاون تھے۔ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "وأنا من رسول الله." میں رسول اللہ سے ہوں، یعنی امام علیؑ فرمانا چاہتے ہیں کہ ان کی منزلت اور موجودہ مقام حضرت رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے وجود مبارک کی وجہ سے ہے، اور آپؑ کا منصب امامت پر فائز ہونا بھی اسی وجہ سے ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؑ کو اس منصب پرفائز کیا ہے۔
تیسری صورت
یہ ایسا خطاب ہے جو لوگوں کو بیھیات کے ذریعے حقیقت کو واضح کرنے کی ضرورت کو منعکس کرتا ہے، اور یہ خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امیرالمؤمنینؑ سے تعلق اور رشتہ کی نوعیت کے ساتھ مخصوص بھی ہے، یہ خطاب درحقیقت اس حق کے منھج پر دلالت کرتا ہے جس کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اختیار کیا ہے۔
امام علی علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ساتھ جس روحانی اور معنوی تعلق کی طرف اذہان کو منتقل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپؑ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں مادی اور معنوی قربت تھی، یہ ایک ایسی قربت تھی جو ایسی فکر بھی مشتمل تھی جو عام تعلق سے آپؑ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے تعلق کو جدا کرتی ہے۔ زندگی کے آخری لمحات میں آپ کی یہ قربت عام رسم ورواج نہیں تھی بلکہ یہ ایک ضروری شرط اور فیض نصبی تھا۔
یہاں امام علی علیہ السلام کے اس جملہ کا مطلب اور اس کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جس میں آپؑ نے فرمایا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حالت میں اپنی جان اللہ کے سپرد کی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِاقدس میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے، اور میں اپنے ہاتھوں کو چہرے پر مل رہا تھا
اس جملے کو اجمالا مندرجہ ذیل نکات کے ذریعے بیان کیا جاسکتا ہے:
اولا: یہ قربِ مادی کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے جس کی رعایت، اور جس کی طرف توجہ کرنا وصیت اور وصیت کی طرح دیگر معاملوں میں ضروری ہوتی ہے، کیونکہ جسمانی اور مادی قربت معنوی قربت کے لیے ضروری ہوتا ہے، یہی ہمارا مقصود بھی ہے۔
ثانیا: امام علیؑ نے جو عبارات ذکر کی ہیں وہ نبوت اور امامت کے درمیان موجود کمال کی طرف اشارہ کررہی ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے، کہ اس جملہ کا " ولقد سالت نفسه في كفي فأمررتها على وجهي" (جب میرے ہا تھوں میں ان کی روح طیب نے مفارقت کی تو میں نے (تبرکاً) اپنے ہاتھ منہ پر پھیر ليے ) یہ تعلق اور تکامل روحی اور کارِ رسالت کے استمرار اور تسلسل پر ہی دلالت کرتا ہے، یہ استمرار اورتسلسل ایسی بنیاد پر استوار ہے جسے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے بیان کیا ہے ، اس فرمانِ امامؑ کے مطالب ماذکر کے علاوہ کوئی اور معنوی تفسیر نہیں ہوسکتی۔
ثالثا: امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان اس دعوی کی نفی کرتا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں آپ کے سر اقدس ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی گود میں تھا۔ یہ مسئلہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا صرف میت کی تودیع اور میت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات میں ملاقات سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ اس سے بالاتر ایک اہم رشتہ کی وضاحت کرتا ہے جو نبوت اور امامت کے درمیان موجود تھا۔ اگر یہ ہدف پیش نظر نہ ہو، توحضرت زہرا سلام علیہا امام علی علیہ السلام سب سے زیادہ اولویت رکھتی ہیں کہ آپ علیہا السلام کی گود میں اپنے بابا سرورِدوجہاں کا سر ہو، کیونکہ آپ اپنے باپ کی ماں ہیں، لیکن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا السلام اس لقاء اور سرگوشیوں کی حقیقت کو درک کرتی تھیں کہ رسالت سماوی کے استمرار کے لیے یہ ملاقات کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
آخری مرحلہ اور دلیل جو اس روحانی تعلق اور رشتہ کو ثابت کرتی ہے اور اس تعلق کے صرف امام علیؑ کے ساتھ ہی مختص ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تغسیل، تجہیز اور تکفین کا مرحلہ، اور ان افعال کے انجام دیتے وقت فرشتوں کے ساتھ رابطہ اور تعاون، یہی مرحلہ حقیقت میں اس تکامل روحانی کا نتائج میں سے ایک نتیجہ اور آثارمیں ایک اثر، اور ساتھ ہی بطورِمنصبِ امامت رسالتِ سماوی سے وصول کرنے والی اہم والی ذمہ داریوں کا مقدمہ تھا۔ مولیٰ کائنات اس کے بارے میں فرماتے ہیں: "ولقد وليت غسله صلى الله عليه وآله والملائكة أعواني، فضجت الدار والأفنية؛ ملأ يهبط وملأ يعرج، وما فارقت سمعي هنيمة منهم، يصلون عليه حتى واريناه في ضريحه، فمن ذا أحق به مني حيا وميتا؟ فأنفذوا علي بصائركم، ولتصدق نياتكم في جهاد عدوكم، فوالذي لا إله الا هو إني لعلى جادة الحق وإنهم لعلى مزلة الباطل، أقول ما تسمعون واستغفر الله لي ولكم".
میں نے آپ کے غسل کا فریضہ انجام دیا۔اس عالم میں کہ ملائکہ میرا ہاتھ بٹا رہے تھے۔(آپ کی رحلت سے) گھر اور اس کے اطراف و جوانب نالہ و فریاد سے گونج رہے تھے اور ایک گروہ اسمان کی طرف جاتا تھا۔وہ حضرت پر نماز پڑھتے تھے اور ان کی دھیمی آوازیں برابر میرے کانوں میں آرہی تھیں۔یہاں تک کہ ہم نے انہیں قبر میں چھپا دیا تو اب ان کی زندگی میں اور موت کے بعد مجھ سے زائد کون ان کا حق دار ہو سکتا ہے ؟ (جب میرا حق تمہیں معلوم ہوچکا )تو تم بصیرت کے جلو میں دشمن سے جہاد کرنے کے ليےصدق نیت سے بڑھو۔اس ذات کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں،بلاشبہ میں جادہ حق پر ہوں اوروہ (اہل شام) باطل کی ایسی گھاٹی پر ہیں کہ جہاں سے پھسلے کہ پھسلے۔ میں جو کہہ رہا ہو ں وہ تم سن رہے ہو میں اپنے اور تمہارے ليےاللہ سے آمرزش کا طلب گار ہوں۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کا پیغمبر گرامی قدر ص کو غسل اور کفن دینا اس نسبی اور مادی قربت کی وجہ سے تھا، چونکہ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے آپؑ سے زیادہ قریب تر کوئی اور رشتہ دار نہیں تھا۔ اور عام طور پر میت کو ان کے ہی عزیز واقارب غسل وکفن اور دفن کرتے ہیں۔
لیکن یہ نظریہ اور احتمال دو جہت سے قابل مناقشہ اور قابل قبول نہیں ہے:
پہلی جہت: یہ عمومی قاعدہ معصومؑ کی نسبت سے جاری نہیں ہوتا، یہ فقط عام لوگوں کے لیے ہے جو غیر معصوم ہیں۔ معصوم کو صرف معصوم ہی غسل، کفن دے سکتا اور معصوم کی نماز جنازہ معصوم ہی پڑھا سکتا ہے۔ بلکہ یہ غسل دینا اور نماز پڑھانا یہ سارےعملی ثبوت ہیں نبوت کے بعد امامت کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور غسل دینے والے کے معصوم ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری جہت: امام علیؑ نے دوسرے لوگوں پر اتمام حجت ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ قرابت، ان امور میں آپ ؑ کے زیادہ حقدار ہونے اور آپ ؑ کی امامت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل و کفن دیا اور یہی چیزیں علی ؑ کی وراثت معنوی اور حقیقی کو درک درک کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے مولیٰ علی ؑ نے فرمایا: (فمن ذا احق بہ منی حیا ومیتا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور موت کے بعد مجھ سے زائد کون ان کا حق دار ہو سکتا ہے ؟
اور یہ تغسیل اسی حقداری کی علامت ہے۔ امام علی ؑ اس روحانی اور ملکوتی فضا کو، جس کو آپ ؑ کے علاوہ کوئی دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی درک کرسکتا تھا، اور جو عملی طور پر امامت کی ذمہ داریوں کے آغاز ہونے کی علامت تھی ، خاص طور ملائکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے میں مولیٰ علی کی معاونت کررہے تھے، ان تمام صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "ولقد وليت غسله صلى الله عليه وآله والملائكة اعواني"، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تغسیل کے فرائض انجام دے رہا تھا اور فرشتے میری معاونت کررہے تھے۔ بلکہ فرشتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور مومنین کے ولی کے ساتھ پانے والے اس الٰہی عہد کی تجدید عہد کررہے تھے۔ اور مولیٰ علی علیہ السلام کے فرمودات آپ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موجود روحانی تعلق کو واضح کرتے ہیں، اور ان کلمات کی وضاحت ہم یوں کرسکتے ہیں:
یہاں پر امر سے مراد بیت شرف نبوت ہوسکتی ہے جو کہ ایسا گھرانہ ہے جہاں سے علم اور روشنی عالم امکان میں پھیلی تھی، یہی امام علیؑ کا بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فرشتے جہاں آمدورفت کیا کرتے ہیں اور اسی مقام معظم سے تبلیغ رسالت شروع ہوئی۔
امام علیؑ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے اپنی خصوصی قربت اور وراثت معنوی واضح کرنا چاہتے تھے اور اس کی تفسیر آپ علیہ السلام کا یہ قول کرتا ہے: میں مسلسل فرشتوں کو گروہ در گروہ آپ کی تشییع میں شرکت اور آپ کے جنازہ پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور سنا ، یہاں میں نے فرشتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضریح مقدس میں حاضر ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ ساری ایسی باتیں ہیں کہ جن کا امام علیؑ کے سوا کسی بھی نے دعوی نہیں کیا۔
امام علیؑ ان کلمات کے ذریعےجبہہ حق کو جبہہ باطل سے جدا کرنا چاہتے تھے، کیونکہ جبہہ حق کے ذریعے ہی اہل حق اور اصحاب حق کی تشخیص ہوسکتی ہے اور اسی کے ذریعے لوگوں کے حق یا باطل پر ہونے کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اسی چیز کو ہم آپؑ کے لوگوں کے ساتھ کی جانے والی گفتگو کے اخر حصے میں مشاہدہ کرسکتے ہیں ، وہ نتیجہ جو آپؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تغسیل اور آپؑ کے ملائکوں کو مشاہدہ کو بیان کرنے کے ذریعے لوگوں کو دینا چاہتے ہیں اس میں آپؑ فرماتے ہیں:
"فوالذي لا إله إلا هو، إني لعلى جادة الحق وإنهم لعلى مزلة الباطل، أقول ما تسمعون واستغفر الله لي ولكم" پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، میں راہ حق پر تھا اور وہ باطل پر تھے، میں وہی بات کرتا ہوں جو تم سن رہے ہیں اور میں اپنے اور تم لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔ یہ حقیقت میں لوگوں پر اللہ کی حجت کو تمام کرنے کے لیے تھا۔