جب رسول اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی کے بیسویں سال میں قدم رکھ چکے تو حلف الفضول کا یہ عظیم معاہدہ انجام پایا، اور آپ بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہ واقعہ آخری حرب الفجا، حلف الطیبیبن اورحلف الاحلاف کے بعد رونما ہوا۔
حلف کے معنی ہیں دو یا دو سے زیادہ افراد یا گروہوں کا ایک دوسرے کی مدد، معاونت، اور ایک دوسرے کے ساتھ متفق اور ساتھ رہنے کا معاہدہ کرنا۔ اس حلف سے پہلے بھی عربوں میں بہت سارے معاہدے ہوئے تھے، جیسے حلف المطیبین، حلف العقبہ وغیرہ، جن کی تفصیل تاریخی کتب میں موجود ہے۔
مؤرخین کے مطابق جس شخص نے سب سے پہلے اس معاہدہ کی تجویز پیش کی اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی وہ آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زبیربن عبد المطلب تھے۔ اس معاہدہ میں بنوہاشم، بنو اسد، بنو تمیم اور بنو زہرہ کے سردار بنوتمیم کے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور انھوں نے اپنے ہاتھ آب زمزم میں ڈبو دیئے اور باہمی طور پر عہد کیا کہ وہ مظلوم کی مدد کریں گے اور منکرات سے لوگوں کو روکیں گے۔
معاہدہ حلف الفضول کو حلف الفضول کہنے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں چند اقوال ہیں؛ بعض مورخین کے مطابق اس معاہدے میں تین افراد ایسے تھے جن کا نام فضل تھا (فضل کی جمع فضول) اس وجہ سے فضول کہا جاتا ہے، بعض دیگر کے مطابق چونکہ حلف الفضول حلف المطیبین اورحلف الاحلاف کے بعد منعقد ہوا، اور ان دو معاہدوں کے علاوہ تھا اور یہ ان پر اضافہ تھا، چنانچہ اس کو اس نام سے موسوم کیا گیا، بعض کے مطابق یہ اس دن تک جزیرہ عرب میں انجام پانے والے تمام معاہدوں پر فضیلت و فوقیت رکھتا تھا اور یہ کہ اس کو ایسے افراد نے منعقد کیا جو صاحب فضیلت تھے، لہذا س وجہ سے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔
واقعہ حلف الفضول کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے پہلے ایک واقعہ پیش آیا کہ قبیلۂ بنو زبید یا بنی أسد بن خزیمۃ کے ایک صاحب ذی قعدہ کے مہینہ میں مکہ آئے اور انہوں نے عاص بن وائل سہمی سے اپنا تجارتی مال فروخت کیا، عاص نے قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول شروع کردیا اور ظلم و انکار پر اتر آیا؛ چنانچہ اس مسافر نے ٹھیک اس وقت جب قریش صحن کعبہ میں بیٹھا کرتے تھے، بوقیس کی پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں کو آواز دی کہ ایک مظلوم شخص کی پونجی لوٹ لی گئی ہے، جب اس کی صدا ئے آہ وفغان زبیر بن عبدالمطلب نے سنی تو ان سے رہا نہ گیا اور وہ اس کی مدد کو پہنچے، اور عاص سے سامان واپس لاکر اس مسافر کے حوالہ کیا، پھر اس کے بعد مستقبل میں اس قسم کے ظلم وناانصافی کے سد باب کے لیے لوگوں کو اس معاہدہ کی طرف دعوت دی، یوں یہ عظیم معاہدہ انجام پایا۔ یہ اتنا اہم تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نبوت اور رسالت کے بعد عرب جاہلیت میں کئے جانے والے تمام معاہدوں کو ختم کردیا، سوائ اس معاہدہ کے، جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تائید فرمائی اور جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : میں (اپنے اعمام کے ہمراہ) عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے کا گواہ تھا کہ اگر لال بالوں والے تمام اونٹ میرے حوالے کردیئے جائیں تب بھی میں اس سے خیانت نہيں کروں گا اور اگر آج بھی اس (طرح کے) معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے تو قبول کروں گا۔