- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام دینِ انسان
2 ذو الحجة 1441هـ

لفظ ’’اسلام‘‘ کے بارے میں بحث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس لفظ کے دو مفاہیم  کے درمیان فرق  کریں جو اس لفظ سے سمجھ میں آتے ہیں: پہلے مفہوم کا دائرہ ذرا تنگ ہے۔ اس کا مطلب یہ  ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے سے پہلے آنے والے تمام ادیان کا خاتَم ہے اور یہ مسیحیت، یہودیت اور دوسرے ادیان جن میں خود ساختہ ادیان بھی شامل ہیں، سے مختلف ہے۔ جبکہ دوسرا مفہوم پہلے مفہوم کی نسبت وسیع ہے، اور جو خدا کی بھی مراد ہے۔ اس مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک عام لفظ ہے جو تمام آسمانی ادیان کو شامل ہے۔ جس کی وجہ سے ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت اسلام ہی ہے۔ اور آنے والی سطور میں ہم اسی بات کو ثابت کرنے والے ہیں:

قرآن مجید کی آیات اور سنت معصومینؑ کے تحقیقی اور مدلل عمل کے ذریعے اور آیات و احادیث میں ’’اسلام‘‘، اس کے مفہوم، فلسفے اور مقصد پر جو بات کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں اس لفظ کی اہمیت کو کم کر دیا گیا ہے اور اسے دوسرے ادیان کی طرح صرف ایک دین بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جبکہ نصوص اس کے مخالف معنی پر دلالت کرتی ہیں، خصوصاً جب ہم اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام لغوی اعتبار سے تسلیم سے مشتق ہے اور تسلیم کا نتیجہ اپنے رب کے لیے عبدیت کی شکل میں نکلتا ہے۔ یا یہ سلام سے مشتق ہے اور یہی سلامتی تمام آسمانی ادیان کا مقصد  ہے کیونکہ ان سب کا سرچشمہ ایک ہی ذات پروردگار متعال ہے۔

قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ادیان کے دوسرے نام ان کے پیروکاروں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بعد وجود میں آئے:) إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ(۔(آل عمران ـ19)[اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی انہوں نے علم حاصل ہو جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتا ہے تو بے شک اللہ (اس سے) جلد حساب لینے والا ہے۔] یہ لفظ ’’دین‘‘ کی ایک جامع اور مانع تعریف ہے جو تمام آسمانی ادیان پر منطبق ہوتی ہے اور یہ آیت اس بات کو بھی خصوصیت سے بیان کرتی ہے کہ دین (تمام آسمانی ادیان میں سے) فقط اسلام ہی ہے اور بس۔

یہ اصطلاح ایسی نہیں ہے کہ جسے فقط قرآن کریم نے ایجاد کیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی یہ کثرت سے استعمال ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس میں حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی بیان ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس بات پر اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے قصص کے بیان میں سابقہ امتوں اور افراد کے بیانات و اقوال کے الفاظ و مفاہیم کو پوری امانتداری کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی تصدیق کی ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے:  ) وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ (71) فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ(72)۔(يونس ـ71ـ72) [انہیں نوح کا قصہ سنا دیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جوکچھ کرنا ہے کر گزرو او ر مجھے مہلت بھی نہ دو۔پس اگر تم نے منہ موڑ لیا تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگا میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں۔] یہ بعینہٖ وہی بات ہے جس کی درخواست حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اپنی دعا میں کی:)وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (127) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(129) (البقرة ـ 127 ـ129).[ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیںاٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما،یقینا تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب!ان میںایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔]

اسی طرح اسلام ہر نبی کی شریعت پر بھی منطبق ہوتا ہے جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے اپنی گفتگو میں اسی بات پر تاکید کی:)  قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (31) قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ (32) لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن طِينٍ  (33) مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ (34) فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (35) فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ (36) وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ(37)۔(الذاريات ـ 31 ـ37).[ابراہیم نے کہا: اے اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو) آپ کی (اصل) مہم کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں۔ جو حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں۔ پس وہاں موجود مومنین کو ہم نے نکال لیا۔ وہاں ہم نے مسلمانوں کا صرف ایک گھر پایا۔ اور دردناک عذاب سے بچنے والوں کے لیے ہم نے وہاں ایک نشانی چھوڑ دی۔]

اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:)وَ وَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصطفى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (132) أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ((133) (البقرة ـ132 ـ133) [اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسی ملت پر چلنے کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد کو یہی وصیت کی) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیاہے، لہٰذا تم تا دم مرگ مسلم ہی رہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کاوقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ سب نے کہا: ہم اس معبود کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔] یہ وہی بات ہے جس کا ارادہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے قوم سے بات کرتے ہوئے کیا تھا:)وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ (84) فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ(85) (يونس ـ84 ـ85) [اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔ پس انہوں نے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے، پروردگارا! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔] بلکہ ان کے سرکش دشمن فرعون نے بھی اسلام قبول کیا اگرچہ اس کا وقت گزر چکا تھا۔ قرآن نے اس کا قول نقل کیا ہے: )وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (90) الآن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (91) فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ(92)۔ (يونس ـ 90 ـ92) [اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے گزار دیاتوفرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔ (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے) جب تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا؟ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔] یہی بات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جادوگر دشمنوں نے کی جب انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا:  )قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ (125) وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ((126)۔ (الأعراف ـ125 ـ 126) [انہوں نے کہا: ہمیں تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری بھی اسلام پر ہی ایمان لے کر آئے:  )وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ)۔ (المائدة ـ111) [اور جب میں نے حواریوں پر الہام کیا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آئیں تو وہ کہنے لگے: ہم ایمان لے آئے اور گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔] اسی طرح سبا کی ملکہ بلقیس نے بھی حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد کہا: )قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ (41) فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أهكذا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ (42) وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ (43) قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(44)۔(النمل ـ41ـ44) [سلیمان نے کہا: ملکہ کے تخت کو اس کے لیے انجانا بنا دو، ہم دیکھیں کیا وہ شناخت کر لیتی ہے یا شناخت نہ کرنے والوں میں سے ہوتی ہے۔ جب ملکہ حاضر ہوئی تو (اس سے) کہا گیا: کیا آپ کا تخت ایسا ہی ہے؟ ملکہ نے کہا: گویا یہ تو وہی ہے، ہمیں اس سے پہلے معلوم ہو چکا ہے اورہم فرمانبردار ہو چکے ہیں۔ اور سلیمان نے اسے غیر اللہ کی پرستش سے روک دیا کیونکہ پہلے وہ کافروں میں سے تھی۔ ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے، ملکہ نے کہا: پروردگار! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔] اسی طرح جب بلقیس کی قوم ایمان لے آئی جب سلیمان علیہ السلام نے انہیں اسلام لانے کی نصیحت کی: ) قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ (29) إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (30) أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ(31)۔ (النمل ـ29 ـ31).[ ملکہ نے کہا: اے دربار والو! میری طرف ایک محترم خط ڈالا گیا ہے ۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے: خدائے رحمن و رحیم کے نام سے۔ تم میرے مقابلے میں بڑائی مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔]

اسی طرح یوسف علیہ السلام نے اپنے اسلام کی اعلان یوں فرمایا: )رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ)۔(يوسف ـ101) [اے میرے رب ! تونے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی، مجھے (دنیاسے)مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔]

اس ساری بحث سےواضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عبودیت کے اظہار کے لیے اسلام ہی تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی اقوام کا دین رہا ہے، بلکہ اللہ نے ہی انہیں مسلمان کا نام دیا۔ پس انہیں مسلمان کہہ کر ان کی توصیف کرنا یہ قرآن کی خصوصیات میں سے نہیں ہے بلکہ پہلی شریعت کے حامل نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام  وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے خالق معبود جلّ شانہٗ کے سامنے ’’تسلیم و تعبّد‘‘ کے مفہوم سے استدلال کرتے ہوئے اپنے آپ پر اور اپنے بعد آنے والے اپنے پیروکاروں پر اس لفظ ’’مسلم‘‘ کا اطلاق کیا: )يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (77) وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ)۔ (الحج ـ77 ـ78)، [اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو کہ امید ہے اس طرح تم فلاح پاؤ گے۔ اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے.] یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحیدی ملت کی پیروی کرنے والے ہر شخص کو مسلم قرار دیتی ہے اور اس کے علاوہ کسی اور بات کو ثابت نہیں کرتی۔

اس سے واضح ہوا کہ اسلام ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے مراد خداوند کریم کی توحیدی شریعت ہے اور یہ اس شخص کی ایک طبیعی اور فطری حالت ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ: )الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)۔(آل عمران ـ19) [اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی انہوں نے علم حاصل ہو جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتا ہے تو بے شک اللہ (اس سے) جلد حساب لینے والا ہے۔] یہی وجہ ہے کہ اس کا اطلاق تمام انبیاء علیہم السلام کے ادیان پر ہوتا ہے۔

لفظ ’’اسلام‘‘ کا کثرت سے استعمال ان لوگوں کے ہاں بھی تواتر سے ملتا ہے جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور انہوں نے اپنے نفس کے لیے غیر اللہ کو رب مان لیا ہے۔ وہ بھی جب اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے اور دین توحید کی پیروی کرنے والے مومنین کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انہیں مسلم ہی کہہ کر پکارتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے جادوگر، اسی طرح فرعون خود  اور اس سے پہلے حضرت بلقیسؑ اور ان کے علاوہ کثیر تعداد میں افراد اسی لفظ کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ’’اسلام‘‘ خداوند کریم جل شانہٗ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ایک نشانی اور علامت کے طور پر معروف اور رائج رہا ہے۔

’’اسلام‘‘ کی اصطلاح صرف مقامی ادیان ہی کو شامل نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے اندر عالمی ادیان کو بھی سمو لیا۔ یہاں عالمی ادیان سے ہماری مراد وہ ادیان ہیں جنہیں اولو العزم انبیاء علیہم السلام لے کر آئے، کیونکہ ان کی شریعت کسی خاص قوم یا گروہ کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ سب کے لیے تھی جیسا کہ حضرت ابراہیم، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کے تمام آسمانی ادیان پر اطلاق سے مراد بعض اوقات ان کی صفت اور وصف کے عنوان سے لے جاتی ہے، کیونکہ ان ادیان کا سرچشمہ امن و سلامتی ہے اس اعتبار سے کہ اس میں خداوند کریم سبحانہ و تعالیٰ کے امر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسلام کی یہی تعریف امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک خطبے میں فرمائی: ’’میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں کر سکا ہے۔ اسلام سپردگی ہے اور سپردگی یقین۔ یقین تصدیق ہے اور تصدیق اقرار۔ اقرار ادائے فرض ہے اور ادائے فرض عمل۔‘‘

اس سے واضح ہوا کہ جس دین کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اس دوسرے دین سے مختلف نہیں ہے جس کا اللہ نے اسی طرح پیروی کا حکم دیا ہے۔ پس مسیحیت اور یہودیت برابر ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اسی طرح ان دونوں ادیان اور اسلام کے مابین کوئی فرق نہیں، اس حوالے سے کہ ان میں سے ہر ایک کا مقصد و مراد اعتقاد اور عمل میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تسلیم مطلق ہے یا علمائے متکلمین کی دقیق اصطلاح میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں: ’’معارف و احکام کے سلسلے میں مقام ربوبیت سے صادر ہونے والے بیان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا۔‘‘

اسی طرح بعض اوقات اسے اسم علم کے طور پر لیا جاتا ہے نہ کہ صفت اور وصف کے عنوان سے۔ اس وقت اس سے تمام ادیان اور وہ دین کہ جس پر اسلام کا اطلاق ہوتا ہے ، مراد لیے جاتے ہیں، البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اسلام ان سب ادیان کا خاتَم ہے۔

قوانین کے حوالے سے کسی بھی دین کا کسی دوسرے دین سے جو امتیاز پایا جاتا ہے جیسا کہ مسیحیت اور یہودیت کے بعض قوانین میں فرق موجود ہے، تو یہ ان ادیان کے نقل کرنے والوں کی، خصوصاً مال و دولت کی لالچ اور تحریف کے بعد جعل سازی کی وجہ سے ہے یا حکم نسخ کی وجہ سے ہے۔ اس کی مثال بعض اسلامی احکام کی تبدیلی ہے جس کا مشہور مصداق مختلف مراحل میں تدریجاً شراب کی حرمت کا حکم ہے، جن میں سے بعد والے مرحلے میں آنے والا حکم پہلے والے مرحلے میں آنے والے حکم کو نسخ کر دیتا ہے۔

گذشتہ تمام بحث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک عام دین ہے جو تمام انسانیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ہر زمان و مکان پر ان کی اصلاح کرتا ہے۔ نتیجتاً یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کا دین ہے اسی طرح ان کے اوصیاء اور حواریوں کا بھی دین ہے، بلکہ یہ انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق یعنی جنات کا بھی دین ہے کیونکہ یہ ایک کامل اور اکمل شریعت ہے: )قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (1) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا (2) وَأَنَّهُ تعالى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا (3) وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا (4) وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا(5)۔(الجن ـ1ـ5).[ کہدیجئے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم کسی کو ہرگز اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے۔ اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بلند ہے اس نے نہ کسی کو زوجہ بنایا اور نہ اولاد۔ اور یہ کہ ہمارے کم عقل لوگ اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ہمارا خیال تھا کہ انسان اور جن کبھی بھی اللہ کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔]