کسی بھی شخص کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانے اور ختم نبوت کے اس نظریے پر ایمان رکھے، جس کی بشارت قرآن مجید نے دی ہے۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اوراسی طرح اسلام کا دین برحق ہونا دیگر حقائق کی طرح دلیل استقرائی عقلی سے ثابت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا پیغام، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآنی تعلیمات جیسے نظمِ اجتماعی، قرآن کریم کا بلاغت، فصاحت اور علمی اعتبار سے معجزہ ہونا، اسی طرح دیگر مسائل اور موضوعات (چاہے جزئی ہوں یا کلی) کے متعلق ناقابل تردید حقائق اور تعلیمات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیبی مدد حاصل تھی، اور تائید الٰہی سے ہی یہ ساری چیزیں ممکن ہوئیں۔ وگرنہ ان سب کا کسی ایسے شخص سے انجام پانا ممکن نہیں ہے جو ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرتا ہو جو ہر اعتبار سے پست اور فرسودہ ہے، اور جہاں کا ماحول آپ کی آفاقی تعلیمات اور رسالت کی کامیابی کے لیے نہایت ہی غیر ناموزون ہو خاص طور پرجب ہم اس دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے دیگر لوگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ساری علمی، معاشرتی، اقتصادی، سماجی، اور سیاسی کامیابیابیوں کے پیچھے ایک غیرمرئی طاقت موجود تھی جس کی تائید سے ہی یہ ساری کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
ہم اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتے ہیں جو اس مطلب کو سمجھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ فرض کرتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا خط موصول ہوتا ہے جو سلیس، روان، عام فہم، پر معنی، ٹھوس مطالب اور جدید طرز تحریر کا شاہکار ہے جسے کسی ایک ایسے بچے نے تحریر کیا ہے جو ایک ایسے دیہاتی سکول میں زیرِتعلیم ہے کہ جہاں نہ تو بنیادی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی نظم وضبط اور منظم طریقہ تدریس۔ یہ خط اس ماحول کے ساتھ مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے اور وہاں کے حالات کو دیکھ کر یہ توقع ہی نہیں کی جاتی کہ اسے اس بچے نے لکھا ہو۔ پس اگر ایسا لکھا گیا ہے تو یقینا وہاں پر ایک ایسا تجربہ کار، شفیق، محنت کش اورwell qualified استاد موجود ہوگا کہ جس نے اس خط کے لکھنے میں مدد کی ہے۔ اگر ایسے استاد کی رہنمائی نہ ہوتی تو ایسے خراب تعلیمی ماحول میں پڑھنے والا ایک طالب علم بلکہ وہاں کے سارے کے سارے طلباء جن کی ذہنی اور فکری سطح پست ہے ہم مل کر بھی ایسا خط نہیں لکھ سکتے تھے۔
ہم اس مثال کا خاتم النبیین نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات کے ساتھ وازنہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جن حالات میں آپ نے اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اور جس معاشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین مقدس اسلام کی بنیاد رکھی وہاں کے حالات بھی اسی طرح تھے، آپ نے کبھی کسی معلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور نہ کسی سے کتاب پڑھی، نہ کسی قانون کا مطالعہ کیا، نہ کسی دستور زندگی اور نظام حیات سے واسطہ پڑا، نہ شعر و خطابت میں حصہ لیا، اس کے باوجود آپ ایک ایسا کلام پیش کرتے ہیں کہ اسلوب و تراکیب میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ا وہ کلام ایک ایسا ور جامع نظام حیات لے کر آتا ہے جو قیامت تک کے لیے قابل عمل ہے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ کلام کسی انسان کی تصنیف نہیں ہوسکتا بلکہ یہ کلام الٰہی ہے۔ جیساکہ قرآن کہتا ہے: اور (اے نبی) آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ کر سکتے تھے۔(عنکبوت:۴۸)
اگر مشرکین نے کبھی حضورؐ کو پڑھتے اور لکھتے دیکھ لیا ہوتا تو انہیں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا بہانہ مل جاتا کہ یہ قرآن وحی نہیں ہے بلکہ یہ دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔ واضح رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سیاہی کی لکیروں کو نہیں پڑھتے تھے جو انسانوں کی کھینچی ہوئی تھیں، اور وہ اس لیئے آپ کا علم ان سے ما وراء تھا۔ آپ لوح محفوظ کی تحریریں پڑ ھ کر آئے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ ان تحریروں کو بھی پڑھ اور لکھ سکتے تھے۔ قرآن میں امکان اور صلاحیت کی نفی نہیں ہے، بلکہ وقوع کی نفی ہے کہ آپ ان کتابوں کے محتاج نہ تھے، لہٰذا ان کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی نہ یہ کہ آپ انہیں پڑھ ہی نہیں سکتے تھے۔ دشمنان اسلام، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ پڑھتے اور لکھتے تھے، جبکہ حضورؐ اگر لکھتے اور پڑھتے ہوتے تو مکے کے ناخواندہ معاشرے میں یہ بات نمایاں طورپر سب کو معلوم ہوتی اور آج کل کے اسلام دشمنوں کی بہ نسبت مکہ کے معاندین کو اس الزام کی زیادہ ضرورت تھی (
دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق حمیدہ ، جیسے سچائی، امانتداری اور وفاداری کے اعتبار سے اس منزلت پر فائز تھے، جس کا کسی سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۴۰ سال اس جاہل معاشرہ میں زندگی گزاری جہاں انسانیت سوز جرائم عروج پر تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن ان تمام تر منفی ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویوں سے پاک اور مبرا تھا۔ اور ان ۴۰ چالیس سالوں میں جن صفات کی وجہ سے آپ شہرت رکھتے تھے وہ آپ کی اخلاقی صفات تھیں، نا کہ علمی، معجزاتی، فصاحت وبلاغت، یا تنظیمی اور اجتماعی صفات۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
کہدیجئے: اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا، اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (یونس:۱۶)
جس نے اپنی چالیس سالہ زندگی کے کسی حصہ میں خیانت نہ کی ہو اور جس کا مزاج جعل سازی، فریب اور جھوٹ سے آشنا ہی نہ ہو وہ یکایک ایک پوری کتاب ایک دین اور ایک نظام از خود بنا کراسے اللہ کی طرف نسبت دینا شروع کر دے یہ ممکن ہی نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضورؐ اپنی چالیس سالہ زندگی ان کلام شناس اور فصاحت و بلاغت کے مالک عربوں کے درمیان گزار چکے ہیں۔ انہیں حضورؐ کے طرز کلام انداز بیان، اسلوب سخن کا علم تھا۔ کیا قرآن اسی انداز و اسلوب کا مظہر ہے؟ اگرایسا ہے تو اس شک کے لیے گنجائش ہے کہ یہ آپ ﷺ کی اپنی تصنیف ہے اور اگر ان دونوں اسلوبوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے تو یہ ان کی اپنی تصنیف کیسے ہو سکتی ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ ا ٓپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بیان ہونے والے عمیق، منفرد اور جامع مفاہیم کے نتیجے میں ایک منظم سماجی ڈھانچہ وجود میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلقات اور بندوں کا اپنے رب کے ساتھ کیسا تھ تعلق اور رشتے کی نوعیت کو بھی واضح کرتی ہیں۔
اس حقیقت سے بھلا کون واقف نہیں کہ اس وقت کے عرب معاشرہ کی حالت ناقابل بیان تھی، کیونکہ وہاں پر بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ، بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوکر عبادت اور بندگی کی جاتی تھی، اور وہاں عدل وانصاف، مساوات، برابری، اور دیگر (Human Values) انسانی قدریں بالکل ناپید تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں عدل وانصاف، اور مساوات پر مبنی ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس کی وجہ سے وہ معاشرہ پستی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکل کر نہایت ہی اعلی ٰ، تہذیب یافتہ اور متمدن انسانی معاشروں میں شمار ہونے لگا۔ اور انسانوں کو بت پرستی کی لعنت اور غلامی سے نجات دلاکر معبود حقیقی کے سامنے جھکنے اور حریت کی طرف آنے کا راستہ ملا اس طرح ان تمام سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور سماجی رکاوٹوں کو ختم کر کے ایک اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدارپر مشتمل معاشرہ وجود میں لایا گیا، جسے ہم ایک عظیم انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور رسالت تمام انبیاء ماسبق اور ان کی طرف سے لائے ہوئے وہ پیغامات، اور حقائق جو اپنی اصلی حالت میں معاشرے میں رائج تھے ان کو منسوخ کئے بغیر سب کی تائید کی۔ پس یہ استقراء علمی (Induction (Scientificہمیں مجبور کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کریں اور بطریق اولیٰ یہ بھی تسلیم کریں کہ اس ہستی کا تعلق ذات پروردگار الٰہی کے ساتھ تھا جو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔