- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


کائنات کے بارے میں خدا کی حکمت
14 جمادى الاخير 1440هـ

جب ہم مختلف  اجزاء پر مشتمل کمپیوٹر کی طرف نظر کرتے ہیں توہمیں دکھائی دیتا ہے کہ یہ ایک منظم انداز میں دی جانے والی ہدایات کے مطابق بہترین انداز سے کام کر رہی ہے۔ عقل کہتی ہے کہ یقینا اس تخلیق کے پیچھے ایک ماہر {بنانے والے } انجنیئر کا ہاتھ ہے۔ یہاں پر یہ کہنا عقلی اعتبار سے بالکل غلط ہے کہ کمپیوٹر کا یہ آلہ خودبخود وجود میں آیا ہے۔ اسی طرح زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان موجود بڑی بڑی مخلوقات اور دیگر دقیق اشیاء کا بھی یہی حال ہے۔کل سے لیکر جزء تک، یعنی کائنات کی تمام جزئیات بہت ہی مدبرانہ اور انتہائی دقت کے ساتھ منظم انداز میں تخلیق ہوئی ہیں ۔

جدید علوم نے تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے اندر موجود بہت ساری نشا نیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس حوالے سے دن بہ دن انسانی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ ان کے پیچھے ایک مدبر، ایک ناظم اور ایک حکیم ہستی کی قدرت ہے اور وہی اللہ ہے۔ اور عقل ہر اس نظرئیے کو رد کرتی ہے کہ جو یہ کہتا ہےکہ ہرچیز کا وجود اتفاقی ہے۔

کائنات ایک ایسے خالق کی محتاج ہے کہ جو کسی کا محتاجنہیں ہے{ برھان امکان}

"مادہ "کے خودبخود وجود میں آنے والی بات عقلا ایک باطل نظریہ ہے۔ استقراء{تحقیق و جستجو} سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام چیزیں حادث ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ازلی یعنی قدیم نہیں ہے۔ مادہ کا دوسری چیزوں کی طرف محتاج ہونا دلالت کرتا ہے کہ اسے کوئی موجد ہی وجود میں لا رہا ہے۔

اگر کہا جائے کہ فطرت ہی تمام چیزوں کو وجود میں لاتی ہے تو فورا ذہن میں دوسرا سوال ا ٹھتا ہے کہ پھر خود فطرت کو کون وجود میں لایا ہے؟

جس طرح ہم نے پہلے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا کہ عقل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر معلول کے پیچھے کوئی نہ کوئی علت موجود ہوتی ہے۔ یہی بات کائنات کے بارے میں بھی صادق آتی ہے۔کیونکہ یہ ضروری امر ہے کہ تمام موجودات کی کڑی کسی ایسے سبب پر ختم ہو جائے کہ جو ان تمام موجودات کی اساس اور بنیاد ہو اور جو ان سب کو عدم سے وجود میں لا ئی ہو۔

علم کلام کی اصطلاح کی رو سے اگر دیکھا جائے تو یوں کہنا ہوگا کہ " کائنات کو وجود میں لانے کے لیے ایک واجب الوجود کی ضرورت ہے"۔ واجب الوجود سے مراد ایسا وجود ہے کہ جو اپنے وجود کے لیے کسی خارجی چیز کا محتاج نہ ہو۔ علاوہ ازیں اس کا وجود کسی اور وجود پر موقوف نہ ہو ایسا وجود فقط اللہ تعالی کا وجود ہے۔ تمام چیزیں دوسروں کی محتاج ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے ۔ جو بذات خود موجود ہے اور وہ کسی کا محتاج بھی نہیں۔

وجدانی وجود{ عقلی اعتبار سے خدا کا موجود}

انسان اپنے وجود سے ہی اپنے خالق کے وجود کا ادراک کر لیتا ہے۔ جو بھی انسان کے وجود پر غور و خوض کرتا ہے ، وہ جب بھی وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے، دل کی دھڑکن کو سن لیتا ہے اور رگوں کے درمیان خون کی روانی کا احساس کرتا ہے۔تو پھر وہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اپنی رگوں کے اندر موجودخون کے بہاؤ کے نہیں روک سکتا ۔ تب فورا یہی سوال ابھرتا ہے کہ دل کو یہ حرکت کس نے عطا کی؟ کس نے اس ارادی حرکت کو وجود عطا کیا؟۔ یقینا اس کے پیچھے ایک مخفی طاقت ضرور ہے۔

ہاں۔۔۔یہ خدا وند متعال ہے۔

وجود خداوندی سے متعلق انسان کا شعور اس وقت بیدار ہوتا ہے جب وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہو ۔

دوسرے الفاظ میں جب انسان کشتی میں سوار ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کا ادراک کر لیتا ہے۔ جب وہ گہرے سمندر کے درمیان ہوتا ہے ،تیز آندھی چل رہی ہوتی ہے اور اس کے سامنے ٹھاٹھیں مارتی ہوئی سمندری لہریں ہوتی ہیں اور اسکا سب کچھ اس کے سامنے ختم ہونے لگتا ہے،تو ایسے وقت میں تمام حقائق کھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں انسان کو نجات دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نہ وہاں کوئی ناخدا دکھائی دیتا ہے جو اسے نجات دلا سکے۔ ایسے میں اس کا دل ایک غیبی طاقت کی طرف چلا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں اسے یقین ہوتا ہے کہ فقط یہی طاقت اسے نجات دلاسکتی ہے۔ یہی قدرت، اللہ کی قدرت ہے جس کا ادراک خود انسان اپنے ضمیر ووجدان اور ضرورت کے ذریعے کرتا ہے۔