- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عدل الہی
10 صفر 1443هـ

عدل اسلام کے اصول دین میں سے ہے اسے بیان کرنے سےپہلے اس کو جان لینا ضروری ہے تاکہ اس کی حدود و قیود کا علم ہو جائے۔عدل کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کوئی اصل بھی ہے فقط ایک فرضی عقلی چیز ہے؟ اور کیا عدل کو اصول دین میں شمار کرنے پر کوئی دلیل بھی ہے؟عدل کو اصول دین میں شمار کرنے کی ادلہ کیا ہے؟ ان سوالات کے جواب دیتے ہوئے ہم کہیں گے۔

عدل کا سب سے اعلی معنی یہ ہے کہ عدل یعنی کسی بھی طرح کے ظلم کا صادر نہ ہونا،اسی طرح بنانے والے ،صاحب طاقت اور قدرت والے کی طرف سےکسی طرح کی حق تلفی اور سختی کا مخلوق پر نہ ہونا ۔یعنی اگر چہ وہ ہر چیز کے کرنے کی طاقت و قدرت رکھتا ہے۔لیکن کیونکہ وہ عادل ہےاس لئے ظلم نہیں کرتا۔پس ظلم تو بھٹکی ہوئی مخلوق کا طریقہ ہےجن کے لیے بعض اوقات عدل کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔اس بات سے اللہ کی پناہ کہ اللہ تعالی کی طرف ظلم کی نسبت دیں کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے۔مثلا انہیں کھانے اور سونے سے منع کرتا ہے تو یہ ظلم و بربریت ہو گی کیونکہ وہ اس کے بغیر مر جائیں گے۔ اللہ تعالی ایسا حکم دینے کی قدرت رکھتا ہے مگر اللہ کی حکمت جس کو اس نے اپنے لیے ضروری قرار دیا ہے وہ اسے اس سے روکتی ہے کہ اس طرح کا ظلم کیا جائے۔

اسی طرح ظلم عقلی طور پر ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ حکیم کی حکمت کے بھی خلاف ہےہر صاحب علم یہ جانتا ہے اور حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھا جائے، اس صورت میں یہ بات اور بھی ضروری ہو جاتی ہے جب کہ انجام دینا والا ایسا کرنے پر قادر بھی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہے کہ ظلم ناپسندیدہ ہے بالخصوص اس صورت میں جبکہ وہ ظلم نہ کرنے پر قادر ہو اور عدل و انصاف انجام دے سکتا ہو۔ظلم تو ہر صاحب عقل کے نزدیک ناپسندیدہ ہے چہ جائیکہ شارع مقدس، اس کے نزدیک تو یقینا ناپسندیدہ ہے۔

ہر وہ فرد جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور امانت کو ادا کرتا ہے وہ ظلم کو قبیح سمجھتا ہے ،بلکہ جو اللہ کو نہیں بھی مانتا وہ بھی ظلم کے قبیح ہونے کو سمجھتا ہے کیونکہ ظلم کا قبیح ہونا شرعی کے ساتھ ساتھ عقلی بھی ہے۔جو اللہ کا فرمانبردار ہے وہ اس پر  انعام و ثواب کا مستحق بنتا ہے۔جو اشیاء کو ان کے مقام پر نہیں رکھتا وہ ظلم کرتا ہے۔اسی طرح وہ شخص جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی امانت میں خیانت کرتا ہے اس کی عزت وتکریم عدالت الہیہ میں ختم ہو جائے گی کیونکہ عقل و شریعت دونوں ایسے شخص کے ان برے کاموں پر سزا کا تقاضا کرتی ہیں۔ایک اور انداز میں دیکھیں تو ظلم کرنا کمزور لوگوں کا طریقہ کار ہےجبکہ اللہ تو سب سے زیادہ قوت و طاقت رکھتا ہے اس لئے اسے تو ظلم کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اگر وہ یہ راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ عاجز و ناتواں  ہو گا اور اللہ تعالی عاجز و ناتوان ہونے سے بہت بلند ہے۔

جب عدل کو اصول دین میں سے ایک اصل قرار دیا جاتا ہے تو یہاں سے اشاعرہ اور دوسروں کا معتزلہ اور امامیہ کے ساتھ اختلاف ہو جاتا ہے۔اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی طرف ظلم کی نسبت دے سکتے ہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔امامیہ کے عقلا اسے قبول نہیں کرتے کیونکہ ایسا ہونا عقلا و شرعا ہر دو صورتوں میں درست نہیں ہے۔عدل دیگر صفات کمالیہ جیسے اللہ کا جمال،علم اور قدرت کی طرح ہے۔عدل کو اصول دین میں سے قرار دینا اس کی اہمیت کی وجہ سے ہے اور اس کو بڑے فکری مسالک نے قبول بھی کیا ہےکہ انسان کی عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ خالق کے کاموں میں ہم ظلم کے جواز کے قائل ہو جائیں۔