یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کے آخر میں رونما ہوا، جس وقت روم کے ممالک میں دین مسیح آہستہ اور مشکل سےپھیل رہا تھا، اس معاشرہ میں بتوں اور ستاروں کی پرستش ایک مقبول مذہب تھا۔ جہاں عیسائی مذہب کے پیروکار ظلم وستم کا شکار رہتا تھا۔
یہ واقعہ رومانیہ کی ایک ریاست فلاڈلفیا (موجودہ اردن) میں رونما ہوا، جہاں حکومت کا سربراہ ایک ظالم بادشاہ دقیانوس تھا۔ وہ ایک انتہائی شقی القلب انسان تھا توحید پرستوں پر ظلم کرتاتھا، ان کے دربار میں موجود چند وزیروں نے نظریہ توحید کو قبول کیا ہوا تھا مگر یہ بات مخفی تھی لیکن کسی طریقے سے ان وزیروں کے ایمان کا علم دقیانوس کو ہوا تو وزیروں نے اپنی جان بچا کرفرار ہوگئے۔ یہ سب اسی شہر کے قریب ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لیکر سوگئے۔ اللہ نے ان کو تقربا تین سوسال تک سلائے رکھا اور تین سو سال کے بعد جب ان کو بیدار کیا تو یہ لوگ آپس میں کہنے لگے ہم ایک دن یا کچھ ایام سوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک کھانا لینے شہر گیا تو وہ بندہ حیران ہوا کیونکہ اس وقت سارا منظر تبدیل ہوچکا تھا تنور والے نے پرانا سکہ دیکھ کر اس اہل غار کو پکڑ کے پولس کے حوالہ کردیا تنور والا یہ سمجھ رہا تھا کہ اس اہل غار کو کوئی خزینہ ملا ہے۔ مگر چھان بین کے بعد سارا واقعہ واضح ہوا تو اصحاب کی زیارت کرنے کے غرض سے حکومت کے اعلی عہدیداران سمیت سارے شہر والے اس پہاڑی کی طرف آ نکلےاور اصحاب کھف سے جا ملے چونکہ اس وقت روم کی حکومت بھی توحید پرست بن چکی تھی۔ ان کے لیے اصحاب کھف کا واقعہ ایک زندہ معجزہ تھا اور اللہ نے اصحاب کھف کی خواہش بھی پوری کردی یہ لوگ پورے معاشرے کو توحید پرست دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی منکرین قیامت کےلیے اللہ نے اپنی حجت تمام کردی اس کے بعد اللہ تعالی نے اصحاب کھف کو پھر سے اسی غار کے اندر سلادی جوکہ ابھی تک سویے ہوئے ہیں۔