سلطنت فاطمیۃ ایک اسلامی حکومت تھی۔ جس نے مذہب شیعہ کی ایک شاخ کہلانے والے اسماعیلی فرقے کو اپنا سرکاری مذہب قرار دیا تھا۔ یہ سلطنت فاطمیوں نے عباسی سلطنت سے الگ ہوکر قائم کی تاکہ وہ اپنے لئے شمالی افریقہ سے مشرق کی جانب واقع علاقوں پر مشتمل ایک آزاد خطہ حاصل کرسکیں۔اور اس کے بعد شام اور حجاز کے علاقے بھی اپنی حدود میں شامل کریں۔ سلطنت عباسیہ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے اہم مقامات بھی ایک سو پانچ سال تک اسی سلطنت کے زیر انتظام رہے۔ اسی طرح بحیرہ روم کے جزیرہ صفلیہ (سسلی) پر بھی اس سلطنت نے حکومت کی اور اسے اپنی حدود میں شامل کیا۔ سلطنت فاطمیۃ سن 297 ہجری بمطابق 909ء سے 567 ہجری بمطابق 1171 ءیعنی تقریباً دو سو ساٹھ سال تک قائم رہی۔ یہاں تک کہ سلطنت فاطمیۃ کے ستارے گردش میں آنے اور اس کی جڑیں کمزور پڑنے پر بغداد میں عباسی سلطنت نے ایک بار پھر اپنی سرزمین پر کنٹرول حاصل کیا۔ اس نے سلطنت فاطمیہ ہی کے ایک وزیر، صلاح الدین ایوبی کی ملی بھگت سے سلطنت فاطمیہ پر چڑھائی کی اوراس طرح بالآخر سن 567 ہجری بمطابق 1171 ء کو اس سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
تحریک کا آغاز:
اسماعیلی شیعوں کی یہ تحریک خلافت عباسیہ کے مرکز سے کافی دور واقع علاقوں سے شروع ہوئی۔ خاص طور پر شمالی افریقہ کے علاقوں میں انہوں نے امام حسینؑ کی شہادت کو بہترین ذریعہ بنا کر اپنی اصلاحی تحریک شروع کی۔ لہٰذا اسے بہت جلد لوگوں کی طرف سے پذیرائی ملی اور وسیع پیمانے پریہ تحریک پھیل گئی۔ اس تحریک کے ساتھ کتامہ یا بربری قبیلے کے لوگوں کا خصوصی تعاون جہاں اس کی کامیابی کا سبب بنا وہاں خلافت عباسیہ کی کمزوری کا سبب بھی بنا ۔عباسی خلفاء کی کمزوری اور حکومتی معاملات میں بیرونی مداخلت اور اندرونی خلفشار اور بغاوتوں کی وجہ سے عباسی خلافت کمزور پڑ گئی ۔ اوریوں فاطمی مستقل طور پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
خلافت فاطمیۃ کا قیام :
عبیداللہ المہدی جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل کے سلسلہ نسب سے منسوب ہیں۔انہوں نے ایک شیعہ کمانڈر عبداللہ کی قیادت میں لشکر تشکیل دیا۔ اور یہ لشکر قیروان میں اغالبہ (بنی اغلب) کی سلطنت پر حملہ کرنے دارالخلافہ میں داخل ہوا۔ پھر عبیداللہ المہدی کو اس سلطنت کا امیر المؤ منین مقرر کیا گیا۔ پس یہی واقعہ خلافت فاطمیہ کا آغاز شمار کیا جاتا ہے۔اس طرح اس نومولود خلافت فاطمیہ نے قیروان ہی کو اپنا دارالخلافہ قراردیا اور یہیں سے سن 909 ء بمطابق 296 ہجری میں فاطمیوں نے شمالی افریقہ کے دیگر علاقوں میں اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔اور یوں یہ سلسلہ عباسی خلافت کی سرزمین کے بڑے حصوں تک پھیلتا گیا یہاں تک کہ مشرق کی سمت یہ حجاز مقدس اور شام کے علاقوں سے جاملا جبکہ مغربی سمت میں بحراوقیانوس تک شمالی افریقہ کے علاقے اس میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ جزیرہ سسلی جیسے کئی جزیرے بھی سلطنت فاطمیہ کا حصہ بنے ۔
مصرکی فتح:
فاطمیوں کا ایک لشکر جرار جس میں عرب اور بربر کے مختلف قبیلوں کے ایک لاکھ جنگجو شامل تھے،وہ ایک فاطمی کمانڈر جو ھر الصقلی کی قیادت میں مصر کی جانب بڑھا ۔ یہ لشکر کسی مزاحمت کے بغیر مصر میں داخل ہوا کیونکہ اس نے مصر والوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھا اور ان کے عقیدوں کے تحفظ کی ضمانت دی۔ پس اسی دن سے مصر فاطمی حکومت کا حصہ بنا اور اس کے محض چار سال بعد فاطمیوں نے اپنی حکومت کا دارالخلافہ مصر منتقل کرتے ہوئے ۔ سن 358 ہجری بمطابق 969 ء میں قاہرہ شہر کی تاسیس کی اور اسے اپنا دارالخلافہ بنایا یہاں تک کہ یہ شہر سن 1171 میں فاطمی حکومت کے خاتمے تک اس کا دارالخلافہ رہا۔
علمی تحریک:
فاطمیوں کا دور علمی اور ثقافتی اعتبار سے ایک سنہرا دور تھا۔ان کے اس دور میں پورا قاہرہ شہر، جامعہ ازہر اور دارالحکمہ سائنسی علوم، دینی علوم اور انسانی علوم کے مختلف شعبوں کے حوالے سے علم ومعرفت کے مراکز بنے جبکہ ان علمی مراکز نے بہت سے قابل ذکر علماء کو اپنی طرف راغب کیا جن میں سب سے مشہور حسن بن الہیثم تھے جو عراق سےچل کر آئےتھے۔ اس کے علاوہ بہت سے دیگر علماء، مؤرخین، محققین اور علم دوست طلاب بھی ان مراکز کی طرف کھنچےچلے آئے۔
سلطنت فاطمیہ کی مشکلات:
سلطنت فاطمیہ کو اپنی اس حکمرانی کے دوران متعدد بڑے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، جن میں سے بعض اندرونی اور بعض بیرونی مسائل تھے۔ اندرونی مسائل کے سبب اسماعیلی فرقہ دو گروہوں میں بٹ گیا تھا۔جس کا ایک گروہ نسبتاً شدت پسند تھا جبکہ دوسرا گروہ قدرے اعتدال پسند تھا۔ بعض اوقات ان دونوں گروہوں میں شدید اختلافات پیدا ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ کئی بار یہ اختلافات مسلح تصادم تک بھی جا پہنچے۔ دوسری طرف وہ بیرونی مسائل تھے جو سلطنت کے امن اور وجود کے لیے خطرے کا باعث بن رہے تھے۔ذیل میں خلاصے کے طور پر چند ایک بیرونی مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:
اول: سلطنت عباسیہ کا خطرہ جو وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے لاحق تھا۔ کیونکہ سلطنت فاطمیہ اسی کا ایک حصہ اور اسی سے جدا ہونے والا جز تھی۔ لہٰذا بغداد ہمیشہ سے اسے اپنے قبضے میں لینا ضروری سمجھتا تھا۔
دوم: اندلس سے اموی حکومت کا خطرہ، اموی حکومت ان دنوں شمالی افریقہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تھی۔
سوئم: صلیبیوں کا خطرہ، سلطنت فاطمیہ کو ان صلیبیوں سے خطرہ تھا جو سلطنت فاطمیہ سے شام کے بعض علاقوں کو چھیننے اور انہیں رومی سلطنت کے ساتھ ملانے کی کوشش کررہے تھے۔
چہارم: اندرونی و داخلی خطرہ، سلطنت فاطمیہ کو ایک بڑا خطرہ اندرونی اختلافات اور مذہبی دھڑے بندیوں کی وجہ سے پیدا ہوچکا تھا۔ اور یہی خطرہ سلطنت فاطمیہ کے خلفاء کو وقتاً فوقتاً پریشان کرتا تھا پس اسی سے پوری سلطنت کو خاتمے کا خطرہ لاحق تھا۔
سلطنت فاطمیہ کا سقوط:
یہ بات صلاح الدین ایوبی کے سلطنت فاطمیہ میں وزرات کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کی ہے کہ صلاح الدین ایوبی سنی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے سلطنت فاطمیہ سے بغاوت کرنے کی تیاری کے طور پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کیا اور اپنے خاص لوگوں کو حکومتی عہدوں میں مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف اس نے اہل مصر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے تحفے تحائف سے نوازا اور ان کی محبتیں حاصل کیں تاکہ سلطنت سے بغاوت کرتے وقت اپنے لیے حمایت حاصل کرسکے جس کا نقشہ اس نے بہت پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد اس نے ان سوڈانیوں کو فوج سے بے دخل کر دیا جو سلطنت فاطمیہ کے شدید وفادار تھے اور ان کےاْس قائد کو سولی پر چڑھایا جو خلافت کا امین تھا۔
صلاح الدین ایوبی حلب کے حکمران نور الدین زنگی کا بڑا وفادار تھا۔ جو خود بغداد میں بنی عباس کی مرکزی خلافت کا ہواخور اور وفادار تھا۔ نورالدین زنگی شام میں اپنی ریاست اور اختیار کو توسیع دینے میں کامیاب ہو گیا تھا اور ان دنوں صلیبیوں کے مقابلے میں ایک طاقتور حریف بننے کے قابل تھا۔چنانچہ نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی سے مطالبہ کیا کہ وہ فاطمی خلیفہ العاضد لدین اللہ کو خلیفہ کا لقب استعمال کرنے سے روکے اور پوری سلطنت کو عباسی خلیفہ المستضیئ بامراللہ سے منسوب کرے۔ چنانچہ صلاح الدین ایوبی نے طویل تردد اور خوف کے بعد اس مطالبے کو قبول کیا۔ آخر 7 محرم 567 ہجری بمطابق 10 ستمبر 1171 ء کو وہ دن آہی گیا جب صلاح الدین ایوبی نے اپنے فاطمی آقاؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اور فاطمی خلیفہ کی بجائے، جو اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، عباسی خلیفہ کو ریاست کا خلیفہ قرار دےدیا۔ اس کے علاوہ حکومتی علامتی رنگ کو سیاہ رنگ میں بدل دیا جو عباسیوں کی علامت تھا۔ اور یوں عباسیوں کی حکومت ایک بار پھر پورے مصر اور شمالی افریقہ میں پلٹ آئی۔