اسلامی دنیا سے مراد ان تمام ممالک کا مجموعہ ہے جن کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے عالم اسلام میں، بہت سے مسلم ممالک جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں یا ایک دوسرے سے جغرافیائی لحاظ سے دور واقع ہیں، سب شامل ہوتے ہیں۔عالم اسلام کے ممالک مغرب کی طرف بحر اوقیانوس سے مشرق کی طرف بحرالکاہل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے جزیرے جو ان دونوں سمندروں کے درمیان یا اس سے باہر واقع ہیں، وہ بھی اسلامی دنیا کا حصہ ہیں۔
اس طرح عالمِ اسلام فقط جزیرہ نمائے عرب پر منحصر نہیں (جو کہ اسلام کا گہوارہ اور عالم اسلام کا قبلہ ہے)، بلکہ عالم اسلام تو پوری دنیا کے مشرق سے لے کر مغرب تک ، شمال سے لے کر جنوب تک پھیلا ہوا ہے اور اس نے دنیا کے ان مختلف قبائل اور متعدد قوموں کو شامل کیا ہوا ہے جو اللہ تعالی کی توحید اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پرچم تلے جمع ہیں۔ جسے کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پرچم بھی کہا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ہر زمانے میں اور ہر جگہ سے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور اسے اپنا قبلہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم کو ایک الٰہی اور مقدس کتاب مانتے ہیں اور رسول اکرم حجرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کا آخری نبی مانتے ہیں۔ پانچ وقت کی فرض نمازوں کو ادا کرتے ہیں اور دیگر تمام امور پر عمل کرتے ہیں جو ان کے عقیدے سے متعلق ہیں۔
عالم اسلام کا رقبہ:رقبے کے لحاظ سے بھی عالم اسلام پوری زمین کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالم اسلام کا رقبہ 28 ملین مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو پورے کرہ ارض کا تقریبا 30 فیصد بنتا ہے۔ عالم اسلام کے اکثر ممالک 60 درجے شمال سے 6 درجے جنوب کے درمیان واقع ہیں جو کہ عرض بلد کے 66 درجے اور طول بلد کے 38 درجے پر پھیلا ہوا ہے۔ یعنی مشرق سے 120 درجے اور مغرب سے 18 درجے کے درمیان واقع ہے۔
عالم اسلامی کے اکثر ممالک کرہ ارض کے نصف شمالی حصے میں واقع ہیں۔ یعنی قدیمی دنیا کے براعظموں میں واقع ہیں۔ فلکیاتی لحاظ سے عالم اسلام خط سرطان کے گرد پھیلا ہوا ہے اور خط استوا سے جنوب کی طرف قدرے جھکا ہوا ہے یعنی براعظم افریقہ کے شمال میں دو تہائی حصہ اور براعظم ایشیا کا مغربی ایک تہائی حصہ اسلامی دنیا پر مشتمل ہے۔
عالم اسلام کا کچھ حصہ جزیروں کی شکل میں بھی ہے۔ جیسے افریقہ کے جزیرہ اتحاد القمری (کوموروسComoros: ) اور جزیرہ کیب ورڈ ، انڈونیشیا کے جزائر اور جنوبی فلپائن کے جزائر وغیرہ بھی اسلامی دنیا کا حصہ ہیں۔
دنیا کے جتنے وسیع رقبے پر عالم اسلام پھیلا ہوا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ باقی دنیا کے مختلف خطوں کی طرح عالم اسلام کے مختلف حصوں میں بھی موسمی لحاظ سے تنوع پایا جاتا ہو ۔ لہذا ایک ہی وقت میں جب کچھ ممالک سخت گرمی اور خشک سالی کا شکار ہوں گے، تو دوسری طرف کچھ ممالک میں سردی اور رطوبت کا عالم ہوگا۔ اسی طرح ان متنوع موسموں کے نتیجے میں مختلف مصنوعات اور محصولات خاص کر زرعی محصولات حاصل ہوتے ہیں۔ اس تنوع سے لازمی طور پر مفادات کا تنوع بھی پیدا ہوتا ہے۔ پس مختلف ممالک کے متنوع حالات کے مطابق تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بھی متنوع ہو جاتی ہیں۔
عالم اسلام کے صحراء:عالم اسلام کی اراضی کا تقریبا 75 فیصد حصہ صحراؤں پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس کے بہت بڑےبڑے صحرا ہیں۔ جیسے افریقہ کے صحراء، صحرا عرب، جزیرہ نما عرب کے صحرا، تھر کا صحرا، افغانستان، پاکستان اور ایران کے صحرا اور صومالیہ کا صحرائے اقسیٰ وغیرہ۔ عالم اسلام کی اراضی میں ان تمام صحراؤں کے باوجود سرسبزوشاداب زمینوں اور زرعی اراضی کی بھی کمی نہیں ہے۔جیسے سوڈان ،مصر ،بنگلہ دیش، پاکستان، عراق اور شام کی زمینیں جو بہت زرخیز اور سرسبز ہیں۔
عالم اسلام کا پانی:پانی کے لحاظ سے عالم اسلامی میں دریاؤں اور جھیلوں کی شکل میں بڑے آبی ذخائر موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک ماہی گیری کے حوالے سے بھی مالا مال ہیں۔ جیسے پاکستان اور افغانستان کے جنوب اور وسطی علاقے ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں مضبوط نہری نظام بھی ہے۔ آپ پاشی کے اس نظام اور بارانی پانیوں نے اسلامی دنیا کو دوسرے ممالک سے نا فقط زیادہ سرسبزوشاداب بنایا ہے۔ بلکہ یہی پانی کی فراوانی ان ممالک میں تمام قدیم تہذیبوں کے پنپنے کا منطقی سبب بھی ہے۔
اسلامی دنیا کی آبادی:آبادی کے لحاظ سے عالم اسلام میں مسلمانوں کی آبادی بھی متنوع ہے۔ یہ تنوع ان کی مختلف زبانوں اور مختلف لہجوں کی بنیاد پر ہے۔ دینی عقائد کے لحاظ سے اگرچہ سارے مسلمان ایک ہیں لیکن زبانوں کے اس تنوع کی وجہ سے لازمی طور پر ان کی متنوع ثقافتیں وجود میں آئی ہیں۔ عالم اسلام میں بسنے والےمسلمانوں کے اسی تنوع کی وجہ سے مسلم ممالک کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔خاص طور پر حالیہ دہائیوں میں جب دین اسلام دنیا کے سارے ممالک ،خاص کر امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی پھیل چکا ہے اور مسلمان معاشی، فکری اور ثقافتی لحاظ سے بھی اہم اور ہیوی ویٹ بن چکے ہیں۔ جس بات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہے کہ آج اسلامی دنیا مختلف پہلوؤں سے ایک ایسی عالمی تحریک بن چکی ہے جس میں معاشی اور فکری پہلو وغیرہ شامل ہیں۔