- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


دین اسلام ، عالمی یا عربی ؟
22 ربيع الاخير 1443هـ

قرآن مجید خصوصا اخلاقی ،اجتماعی اور سماجی مشکلات کے حل کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات میں تدبر و تفکر کرنے والوں ،پر یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے ، کہ اسلام جہاں اپنے سے پہلے والے ادیان سماویہ کے لئے خاتم الادیان ہے۔ وہاں پر یہ ایک مکمل عالمی دین بھی ہے ۔ یہ بات مزید نکھر کر اس وقت سامنے آتی ہے کہ جب انسان قرآن مجید کے ساتھ اہل بیت عصمت و طہارت کے ان احادیث  کا بھی مطالعہ کرے کہ جو قرآن کے آیات کی تشریح و تفسیر کرتی ہیں اور جن معاملات کو قرآن نے اجمالی یا کلی انداذ میں بیان کیا ہے ان کی جزئیات کو بیان کرتی ہیں .

بلکہ اس سے بھی بالاتر بات یہ ہے کہ قرآن نے کبھی ،کسی مرحلے پر بھی کسی ایک قوم ،یا علاقے ۔ مثلا عرب یا کسی اور قوم ۔ سے اپنے آپ کو مختص نہیں کیا ، بلکہ قرآن اپنے مبانی اور تعلیمات کے اعتبار سے بہت وسیع اور پوری انسانیت کو رنگ و نسل ،جنس اور کسی بھی ایسی تفریق کے بغیراپنے اندر سمو لیتا ہے ،بلکہ قرآن اپنے اہداف کے حوالے سے انسانی حدود سے بھی گہری اورآگے کی بات کرتا ہے ، اور حیوانات و نباتات اور جمادات تک کے بارے میں ہدایات دیتا ہے ۔

بعض لوگ قرآن  مجید کا عربی زبان میں نازل ہونے یا محل نزول جریرہ عرب ہونے کے اعتبار شکوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن یہ بہت سطحی قسم کے اشکالات ہیں ،جن کا جواب بھی بدیہی اور واضح ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی کتاب خواہ وہ آسمانی کتاب ہو یا کسی عام انسان کی لکھی ہوئی ہو وہ اپنے مقاصد کے بیان میں کسی نہ کسی زبان کی محتاج ہوتی ہے ، پس زبان وسیلہ ہوتی ہے خود مقصد نہیں ہوتی ۔ جس طرح تورات ہیروغلیفیہ (Hieroglyphics)(قدیم مصری زبان) یا مسماریہ (قدیم بابلی زبان)میں لکھی گئی تھی، جبکہ انجیل عبری اور آرامی زبانوں میں مکتوب تھی  ،بالکل اسی طرح قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ، جس طرح باقی آسمانی کتابوں کا کسی خاص زبان میں نازل ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دین اسی خاص زبان کے حامل افراد اور انہی کے علاقے سے تعلق رکھتی ہے ،کیونکہ کسی بھی وحی کے زریعے حاصل ہونے والی دینی نصوص کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے کسی نہ کسی زبان کی ضرورت ہوتی ، جس میں وہ محفوظ ہو اور اسی سے دیگر زبانوں میں منتقل بھی کیا جا سکے ۔ اسی طرح قرآن کا بھی عربی زبان میں ہونا اس مقدس کتاب کا عربوں کے ساتھ مختص ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی ۔دوسری طرف سے یہ بات بھی ناقابل انکار ہے کہ ہر ہر آسمانی کتاب کو کسی ایک خاص نبی بلکہ کسی ایک خاص قوم میں ہی نازل ہونا ہوتا ہے، اسی طرح جس خاص سر زمین پر وہ قوم اور وہ نبی موجود ہواسی خاص سر زمین پر نازل ہونا بھی ظاہر اور بدیہی سی بات ہے ۔ پھر اس جگہ سے اس دین کی تبلیغ کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے ، پس اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دین اسی خاص علاقہ ،یا قوم سے مختص ہے جس کا دیگر اقوام اور علاقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔علم الاجتماع میں یہ بات بدیہی ترین اور واضح ترین مطالب میں سے ہے ۔

دین اسلام کے عالمی ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کا عالمی ہونا کسی قسم کے اظہار و بیان کا محتاج نہیں ہے ، ہم مثال کے طور پر چند آیات کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں ،جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا اصل ہدف تمام انسانیت کی بھلائی ہے ۔ پس خدا وند متعال کا اپنے حبیب محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں یہ فرمانا : ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ))  اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الأنبياء ـ107)، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے رحمت بنا کر مبعوث ہوئے ۔ آیت مجیدہ میں لفظ "عالمین "اسی بات پر واضح دلیل ہے ۔ اسی طرح دوسری آیت میں رسول خدا کو تمام عالمین کے لئے تبلیغ کا حکم دیا گیا ((تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا)) بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔ (الفرقان ـ1) جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا یہ دین اور قرآن عالمین کے لئے ہے ،کسی خاص قوم یا علاقے کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔ یہی مطلب ہمیں آیت مجیدہ ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)) اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ (سبأ ـ 28). سے بھی سمجھ میں آتا ہے ۔

قرآن مجید کی عالمیت پر مندرجہ بالا آیات اور ان جیسی دیگر آیات کی صراحت کے باوجود دین اسلام ، مقدس کتاب قرآن مجید اور اور خاتم النبیین حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالمیت پر شکوک و شبہات ایجاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس کی اصل وجہ اسلام کا ناقص اور جزئی مطالعہ کرنا ہے ۔ مثلا بعض لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ اسلام عرب قوم اور عرب سر زمین کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ غلط تصور کو پیش کر کے وہ اسلام کو باقی اقوام سے بے گانہ قرار دے کر اسلام کے دائرے کو تنگ اور تاثیر کو محدود کرنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح اس سے پہلے دین یہود کے ساتھ ایسا کیا جاچکا ہے کہ اسے صرف قدس کے ساتھ خاص کر کے ایک حکومت کے طور پر قومی رنگ دیا گیا اوراسے ایک تنگ دائرے میں محدود کر دیا ۔ قرآن کریم کے بارے میں جو شبہات اٹھائے جاتے ہیں،اور انہی کے زریعے دین اسلام پراعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور عربوں کی معاشرتی و سماجی ضرورتوں کو موضوع بنایا گیا۔ مثال کے طور  شبہہ جزیرہ عربیہ میں جنگل اور باغات نہیں ہیں ،کیونکہ یہ صحرائی علاقہ ہے ، اس لئے قرآن نے اپنے ماننے والوں کو جنت میں اس قسم کی چیزوں کا وعدہ کیا جو اس صحرائی علاقے کے لوگوں کے لئے میسر نہ تھے ، جنت میں نعمات کوپھلوں ،پھولوں سے لیکر خوبصورت عورتوں (حور العین)تک،جبکہ جریرہ عرب میں عورتوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے ،اسی طرح جنت میں موجود آسائشوں میں شراب کا ذکر کیا گیا، یہ تمام چیزیں،کھانے پینے کی چیزیں ،خوبصورت عورتیں اور شراب ، صحراء عرب میں رہنے والے بدو عرب کے لئے نہایت پرکشش تھیں ،جبکہ یہی چیزیں انہی دنوں میں کئی دیگر جگہوں پر وافقدار میں لوگوں کے لئے میسر تھیں ، جیسے مصر ، روم ، اور شام وغیرہ جیسے شہری معاشروں میں یہ سب چیزیں موجود تھیں ۔  

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ اولا:جن چیزوں کا ذکر کیا گیا وہ صرف جزیرہ عرب کے لوگوں کی ضروریات نہیں بلکہ ہرانسان کو ان چیزوں کی ضرورت ہے، اسی لئے قرآن مجید نے ان چیزوں کو مورد اہتمام قرار دیا ،ثانیا :ان چیزوں کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے ،نہ این کہ جنت کی نعمات انہی چیزوں میں منحصر ہوں ، ثالثا: جن چیزوں کا ذکر قرآن نے کیا ہے ان میں سے اکثر تو اس زمانے کے شہری لوگوں کے لئے بھی مکمل ناآشنا چیزیں تھیں ،چہ جائے کہ جزیرہ عرب کے لوگ ان کے بارے میں کوئی آشنائی رکھتے ۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے لوگوں کو جنت کے جن نعمات کے ذریعے نیکیوں کی ترغیب دی ہے وہ کسی خاص ماحول اور علاقے سے مربوط نہیں ہیں ،بلکہ بطور کلی انسان کی تمام ضروریات کو شامل کر کے قرآن نے اوصاف بیان کئے ہیں ،پس جس طرح سورہ واقعہ میں جس قسم کے ماحول کا تذکرہ ہے الـ "لا يصدعون" نہ سر کا درد ہو گا و "لا ينزفون" نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا ۔ اسی طرح  "فاكهة" میوے، "لحم" گوشت وغیرہ جو سورہ واقعہ میں مزکور ہیں وہ ایک ایسا ماحول ہے کہ جس کی تمنا ہر انسان کرے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی رہنے والا ہو، يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ان کے گرد تا ابد رہنے والے لڑکے پھر رہے ہوں گے (17) بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ(ہاتھوں میں) پیالے اور آفتابے اور صاف شراب کے جام لیے، (18) لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ جس سے انہیں نہ سر کا درد ہو گا اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا، (19) وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ اور طرح طرح کے میوے لیے جنہیں وہ پسند کریں، (20) وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ۔ اور پرندوں کا گوشت لیے جس کی وہ خواہش کریں

(21) وَحُورٌ عِينٌ  اورخوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی،(22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ جو چھپا کر رکھے گئے موتیوں کی طرح (حسین) ہوں گی (23) جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یہ ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں (24) لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا وہاں وہ نہ بیہودہ کلام سنیں گے اور نہ ہی گناہ کی بات (25) إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا ہاں ! سلام سلام کہنا ہو گا (26)(الواقعة ـ17ـ26)،

لہذا قرآن نے انسان کو بطور کلی ان انعامات کا اعلان کیا تاکہ انسان کوخدائے یکتا پر ایمان کے ساتھ ، کار خیر کی جانب ترغیب کا یہ وسیلہ بنے  ،یہی معاملہ ان آیات کریمہ کا بھی ہے ۔((إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ(( تقویٰ اختیار کرنے والے یقینا سایوں اور چشموں میں ہوں گے (41) وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ اور ان پھلوں میں جن کی وہ خواہش کریں گے (42)  كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اب تم اپنے اعمال کے صلے میں خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو (43) إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں (44)(المرسلات ـ 41 ـ44).

مزکورہ شبہہ سے کہیں زیادہ کمزور اور جواب دینے کی نسبت بہت آسان شبہہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ اسلام جزیرہ عرب میں منحصر رہا اور دیگر بہت سی جگہوں مثلا برازیل ،ثین ،انٹارکٹکا وغیرہ تک نہیں پہنچا ،لہذا کیسےہو سکتا ہے کہ یہ دین عالمی بھی ہو اور بہت ساری جگہوں تک پہنچنے سے عاجز بھی رہے ۔ اس کا جواب واضح ہے کہ اسلام بالکل بھی جزیرہ عرب میں محصور نہیں رہا،بلکہ عراق، فارس، قسطنطنیہ ،شام ،افریقہ وغیرہ تک پھیل جانا اسلام کی گہرائی ،وسعت ، رحمت اور انسان کو قانع و قائل کرنے کی صلاحیت و استعداد کی واضح دلیل ہے ۔ دوسری جانب جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام جزیرہ عرب میں محصور رہا تو گویا وہ مشرق میں انڈونیشیا ،پاکستان ، بنگلادیش ،مغرب میں مغربی صحراء ،جنوب میں جزیرہ ھائے قمر، اورشمال کی جانب سے بلطیق، کوسووو، البانیا  وغیرہ تک پھیلے ہوئے مسمنانوں کی آبادی سے نا بلد ہے ۔ جبکہ ان تمام علاقوں تک پھیلنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ساری دنیا کے لئے اور ہر انسان کے لئے ہے ۔ اور یہی بات اسلام کی قدرت اور انسانوں کی طرف سے بنائے گئےناکام نظاموں کے مقابل ایک کامیاب نظام کے طور پر اسلام کی صلاحیت کی دلیل ہے کہ یہ دین لوگوں کے عقل وشعور کو قائل کر کے انہیں خیر و بھلائی کی جانب لانے پر قادر ہے ۔

یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ اسلام شمالی امریکہ ، جنوبی امریکہ ، یورپ اور افریقہ کے کونہ کونہ تک ان میں رہائش پزیر مسلمان گرہوں کے ذریعے پھیلا ،حالانکہ بڑے بڑے ممالک میں "ادارے" تعصب اور تنگ نظری کے مظاہر سے بھرے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ ہم فرانس اور برطانیہ جیسے جمہوری ممالک میں حجاب پر قانونی پابندی جیسے غیر انسانی سلوک کا مشاہدہ کر رہے ہیں ،لیکن اس کے باوجود اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ادیان میں پہلے نمبر پر ہے ۔  حالانکہ بعض خفیہ ہاتھوں کے ذریعے اسلام کو خوب نقصان پہنچایا گیا اور بعض دھشتگرد تنظیموں جیسے القاعدہ ، بوکو حرام ، داعش  وغیرہ کو اسلام سے جوڑ کر اسلام کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ،لیکن یہ تمام چیزیں بھی اسلام کودینا میں تیزی سے پھیلنے سے مانع نہ بن سکیں۔