اسلام کا ایک صحیح آسمانی اور آخری دین ہونے کو ثابت کرنا اس کے سب سے بڑے معجزے یعنی قرآن مجید سے جڑا ہوا ہے ، کیونکہ دیگر ادیان کے برعکس، کہ جن کی معجزات اور کتابیں تحریف کی شکار ہوئی ہیں اور تناقض کی حد تک اختلاف کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں ، قرآن مجید بہت واضح اور یقین آور معلومات فراہم کرتا ہے
قرآن مجید کی یہی خصوصیت موجب بنتی ہے کہ ہم قرآن مجید کے ذریعے ان لوگوں کو دلیل پیش کرے جو ہم سے دین اسلام کی حقانیت پر دلیل مانگتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید ہی سب سے بہترین راستہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی ان شکوک و شبہات اور سوالات کا جواب دیں کہ جو ایک آزاد اور حقیقت پسند انسان کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں میں ابھرتے رہتے ہیں ـ کیونکہ شک اور سوال ہی حق وحقیقت تک پہنچنے کا بہترین زریعہ ہےـ تاکہ ہم ایک ایسا واضح عقیدہ اختیار کر سکے کہ جس کی بناء پر ہم اپنے خالق کے سامنے سرخرو ہو سکیں ۔
بناء بر ایں مسلمان تو دین اسلام کو قبول کرنے کی وجہ سے نصرانیت اور اس سے پہلے کی شریعتوں کے بارے میں تحقیق کرنے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، کیونکہ اسلام کی سچائی کو تسلیم کرنا دیگر تمام سابقہ شریعتوں کی بھی تصدیق کرنا ہے ، اور اسلام کو قبول کرنا تمام سابقہ انبیاء و رسل کی تصدیق بھی ہے۔
پس مسلمان کے اوپر ضروری نہیں ہے کہ وہ سابقہ انبیاء کے معجزات کے سچے ہونے کی تحقیق کرے،کیونکہ یہ طے ہے کہ اسلام کو قبول کرنے کا مطلب ان تمام سابقہ شریعتوں اور انبیاء کی تصدیق کرنا ہے اور یہی کافی ہے ، لیکن ایک زمانے میں اس مسلمان پر بھی واجب تھا کہ وہ نصرانیت کی سچائی پر تحقیق کرے ،کیونکہ نصرانیت ہی اسلام سے پہلے آخری آسمانی دین تھا ،پس علم و معرفت کے وجوب کی وجہ سے عقل یہ حکم دیتی ہے کہ اس دین کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ اگر وہ نصرانیت کے بارے میں تحقیق کرے اور اس بارے میں اسے یقین حاصل نہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو نصرانیت سے پہلے والے دین کی جانب موڑ دے،جوکہ یہودیت ہے ،اسی طریقے سے وہ اپنی تحقیق جاری رکھے گا یہاں تک کہ اسے کسی ایک دین کی سچائی کا یقین حاصل ہو جائے یا پھر تمام ادیان کو وہ رد کرے ۔ یہی چیز ایک مسلمان اور دیگر کسی دین کے ماننے والے کے درمیان فرق ہے ۔ کیونکہ یہودی کے لئے اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ یہودیت سچا دین ہے اسے نصرانیت اور اسلام کی سچائی کے بارے میں تحقیق سے بےنیاز نہیں کرتا ۔ بلکہ عقل اس کے اوپر لازم قرار دیتی ہے کہ وہ نصرانیت اور اسلام کے بارے میں تحقیق کرے ۔ اسی طرح نصرانی کے لئے بھی حضرت عیسی پر ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دین اسلام کے بارے میں تحقیق سے بے نیاز ہو جائے بلکہ اس کے اوپر عقلا یہ واجب ہے کہ وہ اسلام کی سچائی کے بارے میں تحقیق کرے ۔ اس تحقیق کے بغیر ان کا صرف اپنے دین پر قانع اور مطمئن ہونا ہرگز کافی نہیں ہے ۔
کیونکہ یہودیت اور نصرانیت کسی ایسے دین کی نفی نہیں کرتیں کہ جو ان کے بعد آجائے اور ان ادیان کے احکام کو نسخ کر دے ۔ خصوصا ایسی حالت میں کہ کسی ایک شخص نے بھی حضرت عیسی یا حضرت موسی کو یہ کہتے ہوئے روایت نہیں کی ہے کہ "لا نبی بعدی " یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ پس ایسی حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ یہودی یا نصرانی اپنے عقیدے پر اطمئنان رکھ سکے اور اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انہوں نے اپنے دین کے بعد آنے والی شریعت کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی ۔
جیسے یہودیوں ک لئے شریعت نصرانیت اور نصاری کے لئے شریعت اسلام ،جبکہ عقل یہ حکم دیتی ہے کہ وہ اپنی شریعت کے بعد آسمانی شریعت ہونے کا دعوی کرنے والی شریعت کے بارے میں چھان بین کرے ،اور اگر وہ شریعت درست نکلی تو اس کی طرف رجوع کریں ورنہ عقلا ان کے لئے یہ درست ہوگا کہ وہ اسی دین اور شریعت پر باقی رہیں۔.
لیکن مسلمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے ،کیونکہ وہ جب اسلام کو قبول کرتا ہے اس پر دیگر سابقہ ادیان کے بارے میں تحقیق و جستجو ضروری نہیں رہتا ، اسی طرح کسی بھی ایسے دین کے بارے میں بھی جستجو وتحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اسلام کے بعد آسمانی دین ہونے کا دعوی کرے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی شریعتوں کے بارے ہمارا ماننا یہ ہے کہ اسلام ان شریعتوں کی تصدیق کرتا ہے ، لہذا ان کے بارے میں مزید دلائل کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ شریعتیں اپنے زمانے میں درست تھیں لیکن اسلام کے آنے کے بعد وہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں ،اب ان کے احکام اور کتابوں پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ۔ اور جہاں تک شریعت محمدی کے بعد دعوی کرنے والی کسی بھی شریعت کے بارے میں تحقیق کرن کی ضرورت نہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس لئے ہے کہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا " لا نبی بعدی " اور ہم یہ مانتے ہیں کہ رسول صادق و امین ہیں، (ما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى) وہ خواہش سے نہیں بولتا ،یہ تو صرف وحی ہوقتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخس ان کے بعد نبوت کا دعوی کرے تو اس کے باطل ہونے کےبارے میں تحقیق کی ضرورت ہی کیا یے
البتہ زمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت دور ہونے اور مختلف فرقوں اور مکتبہ ہائے فکر کی موجودگی کی وجہ سے اب مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس راستے کو اختیار کرے کہ جس کے بارے میں اسے یہ اطمئنان ہو کہ یہی راستہ اسے رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائے ہوئے احکام کی معرفت تک پہنچائے گا، کیونکہ مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ وہ ان تمام احکام پر عمل کرے کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شریعت کی شکل میں نازل کئے گئے۔.