- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام کے اصول اور فروع دین کے درمیان ربط و ہم آہنگی کا موازنہ
15 محرم 1444هـ

جب کسی ایسی چیز جس کو اصل دین نام دیا جانا چاہئے اسے فرع کا بھی نام دیا جائے تو اس وقت اصول دین اور فروع دین کے درمیان فرق کا مسئلہ بڑا باریک، مشکل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک  کہ یہ کہنا ممکن ہے کہ کوئی منطقی  منصوص اور متفق علیہ معیار نہیں ہے کہ جس کے ذریعے اصول دین اور اس کے فروع کو جدا اور ان دونوں کے درمیان فرق کیا جاسکے ۔سوائے بعض نظریات کے جنہوں نے کسی ایک سبب یا کسی اور وجہ سے فرق قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کو بعض دوسرے حضرات اسے فرق کا معیار و ضابطہ کے لحاظ سے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کیونکہ اصول دین اور اس کے فروع ان چیزوں میں سے ہیں جن کا قائل ہوئے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، اس لئے ضروری ہے  کہ ان لوگوں کے نظریات کا ذکر کیا جائے جو اصول دین اور فروع دین کے درمیان فرق  بتانے کی غرض سے پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جس کا معتقد ہے اس پر اس کا  نظریہ بتایا جائے گا اور پھر اس کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے بارے میں گفتگو اور اس کی وضاحت کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ہمراہی اور  کس کو اختیار کیا جائے اور کس کو مسترد کیا جائے اور پھر ان کی حد بندی کی جائے۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ اصول دین بنیاد اور اساس دین ہیں اگر وہ نہ ہوں تو اصل دین باقی نہیں رہتا ہے جبکہ فروع دین ایسے نہیں ہیں۔ یعنی ان کے نہ ہونے کی وجہ سے اصل دین ختم نہیں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اصل کو جڑ اور بنیاد سے لیا گیا یہ دین کے لئے مانند زمین ہیں کہ جن کے اوپر دین قائم کیا گیا ہے۔ اگر اصل و بنیاد نہ ہو تو دین کی عمارت گرجاتی ہے نیز دین کو سیدھا بھی انہی اصول کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ فروع دین کی اتنی حیثیت نہیں ہے، اس لئے کہ یہ ایک فرعی عمارت کہلاتے ہیں جو ہمیشہ اور بطور دائم اصل وبنیاد پر قائم رہتی ہے۔ مثلا نماز کو لیجئیے کہ یہ اسلام کے فروع میں سے ایک ہے یہ اصل نبوت کے ساتھ مستند ہے جو قرآن میں آئی تو ہے لیکن تفصیلات کے ساتھ نہیں، اس کی تفصیلات اور ادا کرنے کا طریقہ سب رسول اکرم ﷺ نے بیان کردیا ہے اور اس کو اس کے مختلف حالات کے مطابق نام دیا ہے۔ لہذا یہ اصل نبوت کی فرع کہلاتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کی تبلیغ بھی رسول اکرم ﷺ نے نبوت کے دوران فرمائی ہے۔

اس مقام پر ایک اور گروہ پایا جاتا ہے جو کہتا ہے کہ بعض اصول دین کچھ ایسے ہیں جو اصل پر مبتنی ہیں ( باوجود اس کے کہ ان کو بطور اصل کے درج کیا گیا ہے فروع میں سے نہیں ) یہاں ہم اس اصل امامت کا مشاہدہ کرتےہیں کہ یہ اصل ہے لیکن یہ اصل نبوت سے نکلتی ہے ۔ بلکہ بعض ایسے بھی محققین ہیں جو خود اصل نبوت کے بارے میں قائل ہیں کہ اس کی بازگشت اصل توحید  اور اصل عدل الٰہی کی طرف ہوتی ہے، اس اعتبار سے کہ اللہ سبحانہ وتعالی ٰ کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ضرور انبیاء بھیجے جو مخلوقات کو اس کے بارے میں خبر دیں ، اور اگر یہ اصول نہ ہوتے تو اصل معاد (قیامت کا دن ) جو بندوں کے اوپر خدا کے حق کو بتا دیتا ہے، کا وجود بھی نہ ہوتا ایک اور گروہ ہے جو کہتا ہے کہ اصول دین تو وہ ہیں جن کی بنیاد عقیدہ و فکر نے رکھی ہے۔ جبکہ فروع دین ان لوگوں کے مسالک ہیں جو اس دین کی جانب منسوب ہیں، یعنی دین میں اس کے ماننے والوں کی تشریحات اور طریقے فروع شمار ہوتے ہیں۔ اس بناء پر اصول دین ہر وہ چیزیں کہلاتے ہیں جو ایک مسلم شخص کے عقیدہ سے تعلق رکھتےہیں اور اعتقادی امور میں مسلمان کی فکر اس طرف متوجہ ہوتی ہے ۔ آپ اس کو مسلمان کی دینی آئیڈیالوجی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ،جبکہ دین کے احکام عبادات و معاملات کے مسائل جن پر ایک مسلمان عمل پیرا ہوتا ہے ان کو فروع دین نام دیا جاتا ہے، یہ اعمال اجتماعی اور عملی ہوتے ہیں ( درحالانکہ اصول دین اعتقادی اور وجدانی امور ہوتے ہیں ) البتہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ کہا جائے کہ فروع دین اصول دین سے کم حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا یہ معقول اور منطقی بات نہیں ہے کہ نماز کے بارے میں کہا جائے کہ یہ (فروع میں سے ہے) اصل معاد اور اصل قیامت سے کمتر ہے۔ ان دو قسم کے گروہوں کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے جو قائل ہے کہ اصول دین وہ ہیں جن پر استدلال کیاجائے اور ان کو عقل (یا عقلائی اعتبار سے ) کے ذریعے ثابت کیا جائے ۔ جبکہ فروع کے اثبات اور استدلال کے لئے شرعی دلائل ہی کافی ہوتے ہیں ۔(ان میں عقل کے ذریعے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے) بہتر تعبیر میں یوں کہا جائے کہ اصول دین میں یہ شرط ہے کہ اس کے اثبات والی دلیل عقلی ہونی چاہیئے شرعی دلیل، اصول دین کو ثابت کرنے اور ماننے کے لئے کافی نہیں ہے ۔کیونکہ دلائل شرعیہ کی ثانوی حیثیت ہے پہلے نمبر پر ادلہ عقلیہ ہیں جن کے توسط سے عقاید کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ نص والی دلیل عقلی اور وجدانی دلیل کی نسبت ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔  دقیق تعبیر کے تحت یوں کہیں کہ حدیث اور اس طرح کی نص کے ذریعے خالق کے وجود کا اثبات کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کی بازگشت اور اس کا حاکم بھی وہی وجدان و تعقل  اور تدبر ہے ۔ علاوہ اس کے اگر حدیث سے وجود خالق کو ثابت کرنا چاہیں تو "دور" لازم آئے گا جو کہ منطق کی رو سے باطل ہے۔ لہذا محققین کہتے ہیں کہ کسی بھی اصل دینی کو ثابت کرنے کے لئے استدلال عقلی اور ادلہ عقلیہ کی ضرورت ہو وہ اصول دین میں سے ہے اور جس کے اثبات کے لئے دینی نص یعنی حدیث کافی ہو وہ فرع کہلاتا ہے، یوں اصول دین اور فروع دین میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی اصول دین کو دلیل عقلی سے ثابت کرنے کے بعد تأیید میں حدیث سے بھی استفادہ کیاجا سکے۔ مثلا اثبات معاد (جو کہ اصول دین میں سے ہے) میں بطور تأیید، دینی نصوص  سے بھی استفادہ کیا جائے جو معاد کے میکانیزم کی وضاحت کرتی ہیں۔ جیسے پل صراط، شفاعت، میزان وغیرہ کی طرح بہت سارے امور۔اس طرح کی حدیثی تأیید سے اصل معاد اپنے اصل ہونے سے خارج نہیں ہوتی ہے۔ اس تیسرے گروہ کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ فروع دین کو دلیل عقلی یا  شرعی (نقلی قطعی ہو یا ظنی ) سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور بعض اوقات تو دونوں کے ذریعے بھی، اور اس طرح سے فروع پر اکثر استدلال کیابھی جاتا ہے ۔

ان تمام نظریات کے درمیان تب بھی اصول دین اور فروع دین کے مابین فرق کا موضوع تشنہ بحث باقی رہتا ہے ۔البتہ محض بحث کی  خاطر نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے مندرجات بڑی اہمیت کے حامل ہیں  اس لئے۔