ہم سب اس دنیا میں زندگی گزارتے ہیں اور سب اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ اس زندگی کی لمحات اور ایام تیزی سے گزر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ زندگی کے جو لمحات گزر جائیں وہ واپس نہیں آئیں گے ۔ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اس کی حقیقت کا پتہ ہونے کے باجود سوال یہ ہے کہ ، ہم میں سے ہر ایک جو زندگی گزار رہے ہیں ، کیا یہ وہی زندگی ہے کہ جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جس کی آرزو رکھتے ہیں ؟ کیا یہ اس نوعیت کی زندگی ہے کہ جو ہم اس دنیا میں گزارنا چاہتے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ زندگی کے بارے میں ہماری خواہش کچھ ہو اور جبکہ ہماری زندگی گزر کسی اور طریقے رہی ہو؟
دوسرے لفظوںمیں یوں کہیں :کہ کیا ہماری موجودہ زندگی وہی زندگی ہے کہ جس کے جینے کا ہم سوچتے ، تمنا کرتے اور کوشش کرتے ہیں؟ یا یہ جوزندگی ہم جی رہے ہیں وہ اس زندگی سے مختلف ہے کہ جو ہم جینا چاہتے ہیں؟
ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ آزاد زندگی گزارے ۔ لیکن قطعی طور پر آزادانہ زندگی گزارنے کی طاقت و قدرت مختلف ہے ۔اور اس اختلاف کی وجہ لوگوں کا آپس میں فہم و فراست اور معرفت کے اعتبار سے مختلف ہونا ہے ، اسی طرح یہ اختلاف اس لئے بھی ہے کہ دنوں اور سالوں کو گزارتے ہوئے انسان کس قدر شعور رکھتا ہے ، کیونکہ ہماری چاہت اور ہماری موجودہ حالت میں تعارض و تضاد پیدا ہونے کی بنیادی وجہ غفلت اور بے شعوری ہی ہوتی ہے
ایک ایسی آزاد زندگی کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے ،جو کہ خالص اقدار پر قائم ہو،ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ہر دینی و انسانی قدر، بشر کے ساتھ اس کے تعلق کے اعتبار سے اس کے تین مرتبے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقدار و مبادئ پر مشتمل زندگی کے تین مختلف مراحل ہیں۔ اور ان تمام مراتب و مراحل کے مکمل ہوئے بغیر عملی زندگی مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔
پہلا مرحلہ:
پہلے مرحلے پر فکری اور ذھنی طور پر اس قدر یا مبداء کو قبول کرنا جسے وہ شخص اپنی زندگی میں جاری کرنا چاہتا ہے۔ اس مرحلے پر صرف اس قدر یا مبداء کو جاننے اور اسے اپنانے میں کسی شبہہ یا اس جیسی کوئی اور رکاوٹ کے نہ ہونے کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مرحلہ آسان مرحلہ ہے ۔ لہذا انسانوں میں سے اکثریت قاطع اس مرحلے کو پا لیتی ہے ، بلکہ صرف ان لوگوں کے علاوہ کہ جن کو شیاطین الانس (انسان کی شکل میں شیطان)کہا جا سکتا ہے ، کوئی بھی انسان اس مرحلے سے محروم نہیں رہتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت اور سچائی کو اپنانے کی خواہش کو شیطان کے سوا کوئی بھی انکار نہیں کرتا ۔
دوسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ اس قدر یا مبداء کے ساتھ دلی اور عقلی و وجدانی ارتباط و تعلق پیدا کرنا ہے، کہ جس کو ہم اپنی زندگی میں اپنانا چاہتے ہیں۔ اس مرحلے پر جہاں مرحلہ اولی کا متحقق ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان کی داخلی اور نفسی سلامتی بھی درکار ہے۔ اسی لئے ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ اکثر لوگ جب ان کے سامنے ظلم کیا جاتا ہے نہ صرف فکری طور پر متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان اندراحساسات شعور بھی متاثر ہو جاتا ہے، اسی لئے وہ ظلم کی مذمت کر کے اپنے اندر موجود عدل سے محبت کی قدر کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ:
تیسرا مرحلہ ان مبادئ اور اقدار کوزندگی میں عملی جامہ پہنانا ہے۔ ذہنی و فکری طور پر ان مبادئ و اقدار کو تسلیم کرنے اور دل و دماغ میں ان سے تعلق کو مستحکم کرنے کے بعد عملی میدان میں ان اقدار پر عمل کرنے کی باری آتی ہے۔ اور یہی مرحلہ تینوں مراحل میں سے مشکل ترین مرحلہ ہے ۔ اور اس مرحلے پر لوگوں میں ایک انتہائی قلیل تعداد (اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے)ہی پہنچ پاتی ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے سے لوگوں کی غالب اکثریت کے عاجز رہنے کی وجہ وہی ہے کہ جس کی طرف اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ ہمیں توجہ دلائی ہے ، جسے نفس انسانی کہا جاتا ہے۔
پس جس چیز کو ہم نفس سے تعبیر کرتے ہیں وہ انسان کی زندگی میں خدا کی جانب سے امتحان و آزمائش کا مشکل ترین ذریعہ ہے، کیونکہ خدا نے نفس انسانی کو خلقت میں ہی دنیا اور اس کی لذتوں کی جانب تمائل کو رکھ دیا ہے۔ پس نفس انسانی پہلے اور دوسرے مرحلے پر بہت زیادہ متعارض نہیں ہوتی ، بلکہ لوگوں میں تویہ بالکل تعارض کرتی ہی نہیں ہے ، لیکن اپنی پوری قوت کے ساتھ انسان کا مقابلہ کرتی ہے تیسرے مرحلے پر پہنچنے سے روکنے کے لئے ،کیونکہ انسان کا اس تیسرے مرحلے پر پہنچنا اور ان اقدار ومبادئ کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا نفس کی خواہشات ،کہ جو غالبا مادی و دنیاوی زندگی سے متعلق ہوتی ہیں ،ان کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ رکھتا ہے،
مثلا قربانی اور ایثار بطور انسانی اقدار جب فرد انہیں تسلیم کرے اور دل ودماغ میں اسے مستحکم اور راسخ کرے تو نفس اس کے ساتھ کوئی مشکل پیدا نہیں کرتی لیکن جونہی و ان اقدار کو اپنی روز مرہ زندگی میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے نفس اس کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ انسان کو اس مرحلے میں کامیاب ہونے سے روک سکیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر ان اقدار کو انسانی زندگی میں جگہ ملی تو یہ نفس اور اس کی خواہشات دنیاوی کے مابین حائل ہو جاتی ہیں ،اسی طرح نفس ایسے بہت سے عناصر سے محروم ہو جاتی ہیں کہ جن سے وہ قوت حاصل کرتی ہے۔ اور انسان پر غالب آجاتی ہے، یہ وہی طاقت ہے کہ جو نفس لذت کے عنصر سے خاص طور پر حاصل کرتی ہے، وہ لذت جو ہماری زندگی کا حصہ ہے اور کھانا ،پینا ، سونا ، آرام کرنا ، جنسی لذت ، دکھاوا ، ملکیت ،وغیرہ وغیرہ سے عبارت ہے ۔
اگر ہم قرآن کی طرف تآمل و تفکر کے ساتھ تحقیقی نگاہ سےرجوع کریں تو ہم سورہ "والعصر" میں ان تینوں مراتب کا بیان پائیں گے کہ جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ، پس خدا وند متعال خبر دینے سے پہلے عصر (زمانے)کی قسم کھاتا ہے، پھر اس قسم کا متعلق بیان فرماتا ہے (ان الانسان لفی خسر) بتحقیق تمام انسان کسارے میں ہیں ۔ یعنی اللہ تعالی زامنے کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ انسان اپنے اجزائے ترکیبی کی وجہ سے اگر اپنے آپ پر چھوڑا جائے تو یقینا خسارے کی جانب جانے والا ہے ۔ پھر کچھ انسانوں کو کچھ خاص صفات اپنانے کی وجہ سے اس خسارے سے استثناء کر لیتا ہے(الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات) پس خدا وند متعال نے انسانوں میں سے ایمان لانے والوں اورعمل صالح انجام دینے والوں کو خسارے سے باہر قرار دیتا ہے ، پھر اگلی آیت میں مزید چند صفات کو بیان فرمایا تاکہ خسارے سے باہر نکلنے والوں کو پہچاننے میں ہمیں آسانی ہو ۔ لہذا فرمایا (وتواصوا بالحق وتواصوا الصبر )پتہ چلا کہ مؤمن اور عمل صالح کرنے والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ مشکل اوقات میں ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہتے ہیں کہ مشکلات میں ہمارا موقف حق کے مطابق ہونا چاہئے اور صبر کے ذریعے ان مشکلات کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
پس پہلا اور دوسرا مرتبہ / مرحلہ کہ جنکا ہم نے ذکر کیا آیت کریمہ میں ان کو کلمہ ایمان سے تعبیر کیا گیا ،کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ ایمان اسی ذھنی قبولیت اور قلبی اقرار کا نام ہے ، جو کہ دل وجان میں ان اقدار کو راسخ کرنے کا دوسرا نام ہے ۔ جبکہ تیسرے مرتبے / مرحلے کو عمل صالح کے ذریعے بیان فرمایا ، کیونکہ عمل صالح ان اقدار کا دل و دماغ میں راسخ ہونے کا عملی مظاہر ہیں۔
اب جبکہ ہم آزاد اور مؤمن انسان کے لئے درپیش اقدار و مبادی کے تینوں مراحل و مراتب کو جان چکے، تو ہم کہتے ہیں کہ آزاد مؤمن وہی شخص ہے کہ جو انسانی اقدار و مبادئ کے تینوں مراحل کے ساتھ زندگی گزارتا ہو، پس جب انسان انسانی اقدار کو تسلیم کرنے ان کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے،یعنی مزکورہ بالا تینوں مراحل کو خوش اسلوبی سے طے کر لے تو اس وقت پورے اطمئنان و وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے دنیا میں آزاد زندگی گزاری ہے۔ کیونکہ تیسرے مرحلے کو مکمل کرنے پر وہ یقنی طور پر اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنے فیصلوں میں وہ نفس کی قید سے آزاد ہے ،جس کے نتیجے میں اس کی زندگی نفس کی قید سے آزاد ہے ،وہ نفس کہ جس کے نزدیک انسانی اقدار جب خواہشات ، شہوات اور رغبات کے،قابلے میں آجائیں تو وہ اقدار کی نسبت انہی شہوات و خواہشات کو ہی ترجیح دیتی ہے کہ جن میں سے اکثر کی تو حقیقت میں کوئی قدر وقیمت ہوتی ہی نہیں ہے۔
مزکورہ باتوں سے ہمارے لئے حریت یعنی آزادی کا مفہوم واضح ہوا ،جس طرح اسلامی تعلیمات میں آزادی کا جو تصور پیش کیا گیا ہے، یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جس آزادی کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں وہ در اصل انسان کا اپنے فیصلوں میں اوراپنے سیر و سلوک میں نفس کی قید سے آزاد ہونا اور اپنی زات کے اندر فیصلہ سازی کی قوت کو نفس کی چنگل سے چھڑانا ہی حقیقی آزادی ہے، اسی آزادی کے حصول کے بعد انسان آزاد فرد شمار ہوتا ہے۔
آزادی کا یہ مفہوم یقینی طور پر مغرب میں رائج اس آزادی سے مکمل طور پر مختلف ہے، کیونکہ مغرب کے ہاں آزادی سے مراد نفس کا ان تمام حدود و قیود سے آزاد ہونا کہ جنہیں انسان نے قبول کیا ہے ،خواہ وہ دینی قیود ہوں یا اخلاقی قیود ہوں یا عرفی ، بلکہ اگر بغور دیکھا جائے تو آزادی کا جو مفہوم مسلمانوں کے ہاں اپنے بدترین معنی کے ساتھ آیا ہے وہ ذات انسان کا مکمل طور پر نفسانی اور شہوانی خواہشات کے تابع ہو جاناہے۔
اور جب ہم ان نفسانی و شہوانی خواہشات کی جانب دیکھتے ہیں تو ان میں سے اکثر تو چیزوں کو محض مادی زاوئے سے دیکھتی ہیں اور بعض اوقات معنوی زاویہ بھی ملحوظ ہوتا ہے ،جو مادی نگاہ ہے وہ تو دنیاوی لذات سے آگے دیکھتی نہیں ہے جبکہ معنوی اعتبار سے بھی صرف وہی مصالح پیش نظر ہوتے ہیں کہ جن کو انانیت نے طے کئے ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر ہم آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور آزاد منش لوگوں میں شمار ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے آزادی کے اقدار ومبادئ کے بارے میں معرفت کامل حاصل ہونا چاہئے ، یہ وہی اقدار ہیں کہ جن کی جانب اللہ تعالی نے ہمیں قرآن مجید میں کئی جگہوں پر مختلف طریقوں کے ذریعے بلایا ہے۔ ان اقدار و مبادئ کو مکمل طور پر پہچاننے کے بعد ہمیں ان کوفکری طور پر قبول کرنا چاہئے اور پھر ان اقدار کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اقدار ہمارے افعال و کردار میں اس طرح راسخ ہو اور ان کا رنگ ہماری زندگی میں اس قدر روشن ہو کہ کسی بھی معاملے میں ہمارے موقف اور سلوک کو معین کرنے میں یہی اقدار ذریعہ بنے۔اور یہ جو آخری مرحلہ ہے وہ اس وقت تک ہم خوشاسلوبی سے پار نہیں کر سکتے جب تک ہمیں خود نفس کے بارے میں واضح ، دقیق اورروشن معلومات حاصل نہ ہو ، جب نفس کے بارے میں واضح معلومات حاصل ہونگی تو ہم بہتر طریقے سے نفس کو قابو کر کے اس پر حاکم ہو سکتے ہیں۔ یوں ہم نفس کو اس جگہ رکھ سکتے ہیں نہاں اسے ہونا چاہئے ،اور اسے اپنے فیصلوں میں دخل اندازی سے روک سکتے ہیں ، ایسا نہ ہونے کی صورت میں نفس ہمارے بنیادی اور اہم ترین فیصلوں میں دخالت دے کر دین و دنیا سے متعلق ایسے فیصلے صادر کراتی ہے کہ جو ہمارے لئے دونوں جہانوں میں نقصان کا موجب بنتے ہیں ، اسی مطلب کی طرف خدا وند متعال نے اپنی لا ریب کتاب میں ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا ہے ((قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا)) بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا،((وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا)) اور جس نے اسے آلودہ کیا نامراد ہوا، (الشمس ـ 8-9)