عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان دیگر امتوں پر اپنی افضلیت کے دلیل کے طور پر اس آیت مجیدہ سے استدلال کرتے ہیں، ((كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ)) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (آل عمران ـ 110)،اور یہ استدلال در حقیقت سواد اعظم کے علماء ومفسرین کی دیکھا دیکھی میں کیا جاتا ہے ،چونکہ وہ اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ خدا وند متعال ایک حقیقت کی خبر دے رہا ہے کہ یہ امت یعنی امت مسلمہ ،روئے زمین پر دیگر تمام امتوں سے افضل امت ہے۔ اس کی وجہ اس امت کا امر بالمعروف و نہی المنکر کرنےاور خدا پر ایمان لانے کے ذریعے باقی امتوں سے ممتاز ہونا ہے ۔ آیت مجیدہ کی یہ تفسیر اور اس آیت سے یہ فہم لینا در اصل اس بات کا موجب بنتا ہے کہ اس امت کے افراد ایک خاص قسم کی حالت فخر واعتزاز میں زندگی کرے جو کہ ان کا اپنی ذات پر راضی رہنے اور خود پسندی کی کیفیت میں زندگی گزارنے کا موجب بنتا ہے ۔
اس مقام پر حق بات کہ جس تک خدا وند متعال کے انصاف اور عدالت مطلق کو ذھن میں رکھتے ہوئے تامل و تفکر ہمیں پہنچاتی ہے ،وہ یہ ہے کہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان رائج آیت مجیدہ کی یہ تفسیر آیت مجیدہ میں استعمال شدہ کلمات کے معانی و مراد سے بہت دور ہے ۔ بلکہ اگر ہم اس آیت میں غور و فکر کریں اور قرآنی کلمات میں دقت سے ان کے معانی دیکھیں تو یہ آیت اس امت کے پیروکاروں کوحسرت و ندامت کا احساس دلاتی ہے ،کہ اس امت نے اس معاملے میں تفریط اور سستی سے کام لیا کہ جس میں اگر تفریط نہ کرتی تو بلا شبہہ یہ امت انسانیت کی فلاح بہبود کے حوالے سےروئے زمین پر دیگر تمام امتوں سے افضل ہوتی ۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے ہمیں آیت مجیدہ میں استعمال شدہ کلمہ "خیر "پر رک کر اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اس طریقے سے اس آیت مجیدہ کے اصل معنی تک ہم پہنچنا ہمارے لئے آسان ہو سکے۔
پس آیت میں "خیر" کا لفظ استعمال ہوا ہے نحوی قواعد کے اعتبار سے اسماء تفضیل میں سے ہے ، اور اوزان کے قواعد کے اعتبار سے یہ اصل میں «أَخْيَر»، ہے جس طرح شر اصل میں أَشَرُّ اور حب اصل میں أَحَبُّ تھے ، اس کے الف کو حذف کر کے اس کے بدلے خاء کے سکون کو فتحہ میں تبدیل کیا گیا ہے ، کیونکہ عربوں کے ہاں ان کا بغیر الف استعمال بہت زیادہ تھا ۔
حق بات یہ ہے کہ مزکورہ آیت میں کلمہ خیر اپنے عمومی معنی کے اعتبار سے دو ہی مفہوم و معانی رکھتے ہیں ۔ پہلا : مفہوم خیر یا افضل ہونا ،جس پر خود یہ کلمہ دلالت کر رہا ہے ۔
دوسرا : کثرت اور تفاوت جس پر اس کلمے کا صیغہ دلالت کرتا ہے ، جب ان دونوں معانی کو جمع کرتے ہیں وہ اس سے ہم ایک معنائے عام اخذ کرتے ہیں جو کہ خیر اور بہتر ہونے کی نسبت میں مختلف امتوں کے درمیان تفاوت کا ہونا ہے ۔
لیکن نحوی حضرات کا یہ کہنا کہ اسماء تفضیل میں بالعوم اور کلمہ خیر میں بالخصوص تفضیل کا معنی پایا جاتا ہے ،یہ دعوی ہر گز درست نہیں ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم ان اسماء میں سے ہر ایک پر غور کرتے ہیں کہ جن کو نحوی حضرات اسماء تفضیل کہتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ ان اسماء میں سے اسم کے علاوہ باقی میں کسی کے بھی مفہوم میں تفضیل کا معنی موجود نہیں ہے ، بلکہ تفضیل کا مفہوم ان اسماء میں خارج سے آتا ہے ، جب ہم چیزوں کے درمیاں اختلاف اور افضیلت کا تصور کرتے ہیں ، تو ہم کہتے ہیں کہ دونوں میں سے جج کی طرف نسبت زیادہ ہے وہ افضل ہے " مثلا علم کو جب ہم نسبت دیتے ہیں زید اور بکر کی طرف تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کا علم برابر نہیں ہے ، پس ان میں سے ایک افضل ہے ، لہذا جس کی طرف علم کی نسبت زیادہ ہوگی وہ افضل ہوگا ۔
اور یہ کہنا کہ ہر تفاوت میں زیادہ نسبت رکھنے والا افضل ہوگا ،یہ بھی ایک شبہہ ہے کہ جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس کی طرف شر کی نسبت زیادہ ہو ،وہ افضل نہیں ہو سکتا ، بلکہ وہ افضل کے مقابلے میں آنے والے کلمے کا مصداق ہو گا ۔ نتیجہ یہ ہوا، کہ «أنَّ أمَّتنا خَيرَ الأمم» کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری امت تمام امتوں سے افضل ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری امت باقی تمام امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی ہے ۔
مندرجہ بالا باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آیت مجیدہ میں وارد شدہ کلمہ سے زیادہ سے زیادہ جو معنی لیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ امت محمدی باقی امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی امت ہے ، نتیجہ یہ کہ یہ امت باقی امتوں کی نسبت اس امت سے زیادہ خیر کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ کہنا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ امت باقی تمام امتوں سے افضل ہے ،تو یہ معنی کلمہ خیر سے حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ یہ لفظ سے خارج عقلی حکم سے حاصل شدہ معنی ہے ۔ پس مزکورہ آیت سے امت اسلامیہ کو باقی تمام امتوں سے افضل قرار دینا ممکن نہیں ہے ،جب تک دو شرطیں مکمل نہ ہوں ۔
• پہلی شرط: یہ ثابت ہو کہ خیر میں تفاوت افضلیت کے مصادیق میں سے ایک ہے ، اور یہ شرط تو حاصل ہے ۔
• دوسری شرط: امت اپنی اجتماعی و عملی زندگی میں ان شرائط کو عملی جامہ بھی پہنائے جن کی وجہ سے یہ امت باقی امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی قرار پاتی ہے ، وہ شرائط آیت مجیدہ میں بیان ہوئی ہیں ، جنہیں ہم بعد میں بیان کریں گے ۔
مزکورہ دونوں شرائط پوری ہونے کے باوجود بھی ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اس امت کی افضلیت مطلق نہیں ہے بلکہ یہ خیر کے بعض مصادیق کے حدود کے ساتھ محدود ہے ۔ نہ یہ کہ امت مسلمہ ہر حال میں تمام امتوں سے افضل ہو۔ مندرجہ بالا آیت مجیدہ سے مراد مولی جل جلالہ کو سمجھنے کے لئے سیاق آیت کی طرف رجوع کرنے ، نیز کلمہ خیر کا معنی معلوم ہونے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ آیت مجیدہ سے زیادہ سے زیادہ جو معنی سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ ایک اعتباری گروہ ہے کہ جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مشترکہ نظام معرفی اور نظام عمل کے حامل افراد بشرسے عبارت ہے ۔ اور ان سب کی حرکت ایک خاص سمت میں ایک خاص ہدف کے حصول کے لئے ایک خاص راستے پرواقع ہوتی ہے جسے وہ خاص نظام طے کرتا ہے جو ان لوگوں نے اپنایا ہوتا ہے ہے ۔
پس یہ امت مرحلہ فعلیت و واقعیت تک پہنچنے کے لئے ، جبکہ وہ بالقوہ مختلف انسانی گروہوں میں موجود تھی، اس عنصر کی حامل تھی کہ جو اسے دیگر امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی امت بناتی ہے ۔ امت محمدی کو دیگر امتوں سے زیادہ خیر والی بنانے والا وہ عنصر امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے کہ جس کا اللہ تعالی نے آیت مجیدہ میں ذکر فرمایا ہے ۔ ((كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ)). تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو
آیت مجیدہ میں امر بالمعروف کو ایمان باللہ پر مقدم کر کے بیان فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس امت کا ذیادہ خیر والی امت بننے کا بنیادی سبب خود امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ، پس اگر خدا وند متعال ایمان باللہ کو امربالمعروف و نہی عن المنکر سے پہلے ذکر فرماتا تو یقینا ہم یہی کہتے کہ اس خیر امت ہونے کی بنیادی وجہ اور سبب، ایمان باللہ ہے ۔
اسی طرح آیت مجیدہ میں امر بالعروف کو ایمان باللہ پر مقدم ذکر کرنا اس بات کو بھی معین کرتا ہے کہ کون سے معروف کا امر کرنا اور کون سے منکرسے نہی کرنا ہمارے اوپر واجب ہے ۔کیونکہ یہ واضح سی بات ہے کہ معروف اور منکر کے مصادیق کی تشخیص اعتباری امور ہیں ، اعتبار کرنے والے کے اعتبار کے مطابق ان کے مصادیق قرار پائیں گے ، نتیجتا کسی شے کو معروف یا منکر کہنا نسبی بات ہوگی ، یہاں نسبی ہونے سے ہماری مراد یہ کے کہ کسی چیز کو شرع ،(شارع مقدس کے اعتبار کی اتباع کرتے ہوئے جو کہ اشیاء میں موجود مصلحت و مفسدہ واقعیہ کے تابع ہے) منکر قرار دے ،ممکن ہے بعض اوقات عرف (جو کہ لوگوں کے اعتبار کے مطابق ہے اور لوگوں کا یہ اعتبار اشیاء میں موجود مصالح و مفاسد ظاہریہ کے تابع ہے)اسی چیز کو معروف قرار دے ۔ یہی حال معروف کا بھی ہے کہ بعض اوقات عقل جذبات کے تابع ہوکر کسی چیز کو معروف قرار دیتی ہے جبکہ اسی چیز کو شارع مقدس منکر قرار دیتا ہے۔
اس اشکال کو رفع کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایمان باللہ کو مؤخر رکھا ہے ، تاکہ یہ اس بات کی دلیل بنے کہ جس قسم کا امر بالمعروف و نہی عن منکر اس امت کو خیر عطا کرنے میں باقی امتوں پر فوقیت دیتا ہے وہ صرف اسی معروف کا امر کرنا ہے کہ جسے شارع مقدس معروف قرار دے ،اسی طرح نہی عن منکر میں صرف اسی منکر سے منع کرنا ہے کہ جسے شارع مقدس منکر قرار دے ، ہر قسم کے امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ اس امت کودیگر امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی امت بنا سکے ۔
بنا بر ایں جب ہم نےن جان لیا کہ امت اسلامیہ کودیگر امتوں کی نسبت زیادہ خیر والی امت بنانے والی چیز در اصل اس امت کا خدا وند نتعال کی جانب سے ایک ایسے فریضے کی حامل ہونا ہے جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا جاتا ہے ، اور ہم نے یہ بھی جان لیا کہ آیت مجیدہ میں معروف اور منکر سے مراد وہی ہیں جنہیں مولا معروف اور منکر قرار دے ۔ ان تمام باتوں کو سمجھنے کے بعد اب ہم اس حقیقت پر مزید تاکید کرتے ہیں کہ چونکہ امر بالمعروف و نہی عن المکر ہی اس امت کو دیگر امتوں پر خیر کے اعتبار سے فوقیت دینے والی شئے ہے ، پس جونہی امت نے اس عمل کو انجام دینے میں کمزوری دکھائی ،اسی وقت اس امت کا دیگر امتوں پر خیر میں بھرتری کی نسبت بھی کم ہوگی ،اور جب امت اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ وہ اس فریضے کو بالکل ترک کر دے تو یقینا اس امت میں خیر بھی ختم ہو جائے گی ۔ دوسری جانب چانکہ واقع حال خیر یا شر سے خالی نہیں رہ سکتا ،لہذا خیر کا خاتمہ ہو تو پھر یقینا اب شر کا پہلو سامنے آئے گا اور امت دیگر امتوں کے لئے شر کی موجب بنے گی ، حالانکہ فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ادا کرنے پر یہ امت دیگر امتوں کے لئے بھی سر چشمہ خیر تھی ۔ اور جب صورت حال یہ ہوگی تو خدا وند متعال کی عادلانہ سنت جاری ہوگی جس کا ذکر آیت مجیدہ میں ((وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ))(محمد ـ38 ). بیان کیا گیا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت مجیدہ کے کلمات پر غور کرنے کے بعد جو بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ،آیت میں کسی طور بھی ایسی دلالت موجود نہیں ہے کہ امت اسلامیہ باقی تمام امتوں سے افضل ، یا اس آیت کے نزول کے بعد امت اسلامیہ باقی تمام امتوں سے افضل ہو گی ہے ، بلکہ یہ آیت مبارکہ صرف یہ خبر دے رہے ہے کہ امت اسلامیہ کے پاس اپنے روز وجود سے ہی ایک ایسی خصوصیت کی حامل ہے کہ جسے امر بالعروف ونہی عن المنکر کہا جاتا ، وہ معروف اور منکر کہ جنہیں شارع مقدس انسانوں کے لئے ان کی مصلحت و مفسدہ واقعیہ کے بنا پر معروف یا منکر قرار دیتا ہے ۔ پس یہ امت اس خاص عنصر کی حامل ہے کہ جو اسے دیگر امتوں سے خیر اور عطا میں ممتاز و برتر بنا سکتا ہے ۔