- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


ذہنی تربیت قرآن اور علم نفسیات کی روشنی میں
13 رجب 1443هـ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسانی فکر کی تربیت اور انسان کی لامحدود نفسانی خواہشات کی تہذیب کے لیے ایک منظم نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔علم نفسیات ایک اہم علم ہے اور اس سے انسان کی تعلیمی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اس کے ذریعے ہی انسان انفرادی تعلیم کو حاصل کر پاتا ہے اور اسی کی مدد سے تعلیم کو زینہ بہ زینہ آگے بڑھاتا ہے۔اس کے ذریعے ہی انسانی معاشرے میں عقلی رویے پروان چڑھتے ہیں اور اسی کے ذریعے عمل کی دعوت و آگاہی ملتی ہے۔یہ مضمون مضامین کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ذہن کی تعلیم کی اسلامی بنیادیں کیا ہیں؟ اور پھر اس کا موازنہ ان تحقیقات سے کیا جائے جن تک انسان اپنے وسائل سے پہنچا ہے۔اس حصے میں ہم علم نفسیات کی انسانی بنیادوں کو جانیں گے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ قرآن مجید ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

پہلا:علم نفسیات کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور اس کے شعبے کون کون سے ہیں؟

ا۔علم نفسیات کا تعارف

 علم نفسیات کی تعریف ایک ایسے علم کے طورپر کی گئی ہے جو تعلیم ،طرق تعلیم کی پہچان کراتا ہے، جس میں اساتذہ طلاب کی ذہنی اور نفسیاتی آگاہی کے لیے ان کو تعلیم دیتے ہیں اسی طرح علم نفسیات انسان کے ادراک،علم اور معرفت کے درمیان آنے والے مسائل سے نمٹنے کا حل دیتا ہے۔

یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ تعلیم کا تصور مجرد سیکھنے سے مختلف ہے کیونکہ سیکھنے والے کا طرز عمل اور اس کا رجحان ہی بتاتا ہے کہ اس نے کیا سیکھا ہے؟ جبکہ علم نفسیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ فوکس سائنسی سوچ ،ادراک اور ذہن کے اندر ذہنی حرکت ہوتی ہے اگر ہم ان دونوں کے درمیان مشترکات کی بنیاد پر جمع کرتے ہوئے کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ علم نفسیات وہ علم ہے جو انسان کے ادراک،اس کے مسائل سے نمٹنے کے طرز عمل، لسانی صلاحیتیں، اسی طرح انسان کے انفرادی ردعمل، انسان کا معاشرے میں جذباتی توازن کی بات کرتا ہے یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کے ذریعے ایک پیچیدہ مجموعی نتیجہ ہی انسان کی نفسیات کا عکاس ہوتا ہے۔

ب:علم نفسیات کے شعبے

جب ہم علم نفس کے شعبوں کی بات کرتے ہیں تواس کے بہت سے شعبے ہیں۔علم نفسیات ان کے مجموعےسے ہی معرض وجود میں آئی ہے جیسے علم اتنظامی نفسیات ،قیادت کی نفسیات اورسیاسی نفسیات۔ اصل میں علم نفسیات ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم معاشرے کی قیادت اور نمائندگی کرنے والے لوگوں کی نفسیات کو سمجھ سکیں۔ یہ انسانی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے اور اسی کے ذریعے ہی انسان کے تکامل کا سفر جاری رہتا ہے۔ انسان کو بھٹکنے سے بچانے اور اس کو اعتدال میں رکھنے کے لیے علم نفسیات جنائی کو متعارف کرایا گیا ہے۔ ہر شخص جو کچھ سیکھتا ہے اور زندگی میں جس کا علم اسے حاصل ہوتا ہے اور وہ ماحول جس میں وہ پروان چڑھا ہوتا ہے اسی پر اس کی فکر بنتی ہے اور اس کے نتائج کے مطابق ہی وہ زندگی بسر کرتا ہے۔اس لیے علم نفسیات کو سیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیم کے ذریعے انسان فکر کے بارے میں جانتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ علم انسان میں یہ قابلیت پیدا کرتا ہے کہ انسان فکر کی اقسام کو جان سکے اور اسے اس بات پر بھی قدرت حاصل ہو جائے کہ انسانوں کے درمیان اذہان اور استعداد کے لحاظ سے بہت فرق پایا جاتا ہے جو ان کے نظریات کو جاننے اور پرکھنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت میں آنے والا فرق ان کے اقدامات پر اثر انداز ہوتا ہے ان کے تخیل ،مشکلات کو حل کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔اسی سے تصورات اور تصدیقات سے بڑھ کر کسی بھی مفہوم کے معنی کا ادراک حاصل کرنے کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے ان صلاحیتوں اور خصوصیات کا پتہ چلانے کے لیے بہت سی تخصصی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

ج:علم نفسیات کی بنیادیں

۱۔حواس کی پختگی

جب انسان کے حواس پختہ ہو جاتے ہیں تو انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ حواس کے ذریعے سمجھے جانے والے امور کو سوچ سکے۔اس کے ذریعے وہ ان تعلیمی بنیادوں کو بھی سیکھ سکتا ہے،اس کے ذریعے اہم تجربات کر سکتا ہے مثلا وہ چل سکتا ہے اور چلنے کے ذریعے حاصل ہونےو الے تجربات کو محسوس کر سکتا ہے۔اسی طرح وہ ان مہارتوں کو بھی سیکھ سکتا ہے جن کا تعلق محسوس کرنے سے ہوتا ہے جیسے پڑھنا ،لکھنا وغیرہ اسی طرح اس کے تعلم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے جس کے پاس جو حس نہیں ہے اس کے پاس اس حس سے حاصل ہونے والا علم بھی نہیں ہے۔بعض ایسی تعلیمی مہارتیں ہیں جن کے لیے حس کا ہونا ضروری ہے جیسے دیکھنا بہت سی تعلیمی سرگرمیاں اس حس پر موقوف ہوتی ہیں۔اس لیے حواس اور تعلم دونوں باہم ملے ہوئے ہیں اور ان دونوں کا علمی تکامل میں اہم کردار ہے۔

۲۔استعداد

استعداد اس صلاحیت کو کہتے ہیں جو کسی انسان کی  سیکھنے پر قدرت ہوتی ہے اور یہ بھی حواس سے مربوط ہے۔ہر چیز کے سیکھنے کا ایک وقت ہوتاہے جیسے انسان اپنی تعلیمی سفر میں پہلے پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے پھر وہ جملہ بندی اور سیکھنے کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ جاتا ہےجس میں وہ خبر گیری کرتا ہے ،سوچ کر منصوبہ بندی کرتا ہے کہ کس لیے اور کس طرف  جانا ہے کا فیصلہ کرتا ہے مشہور مفکر بیاج نے اس رائے کو اختیار کیا ہے اور برونر نے اس کی مخالفت کی ہے اس کی رائے میں استعداد کا تعلق عمر سے نہیں ہے بلکہ یہ عقلی عمل سے سمجھنے کی قوت ہوتی ہے۔تورندیک کہتا ہے کہ استعداد کا تعلق  فرد کے مزاج اور اس کی پرورش کس عصبیت پر ہوئی ہے اس سے ہے۔ سرور اور لذت میں زیادہ سیکھتا ہے اور اس کی سیکھنے کی قدرت  کم ہو جاتی ہے جب وہ مایوسی اور عدم اطمنان  ہوتا ہے۔

۳۔تربیت و پریکٹس

تربیت،باخبر ہونا اور مسلسل پریکٹس کرنا وہ اہم ترین عوامل ہیں جو انسان کے سیکھنے کے عمل میں مدد گار ہوتے ہیں۔یہ بات بہت سے تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ تجربے سے سیکھنے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے۔تجربے کے نتیجے میں صرف ایک بات نہیں سیکھی جا رہی ہوتی بلکہ تجربے کے نتیجے میں بہت سے نتائج سامنے آگے ہیں اور سیکھنے کے لیے عوامل کی پوری فہرست سامنے آ جاتی ہے۔

۴۔بتدریج  اور مسلسل سیکھنا

انسان کے سیکھنے کا عمل مسلسل اور درجہ بدرجہ جاری رہتا ہے یہ یکبارگی نہیں ہے کہ تمام انسان ان کے حالات اور صلاحیتوں مختلف ہیں اس کے باوجود وہ سب ایک بار میں ہی سب کچھ سیکھ لیں۔ان کے علاقے مختلف ہوتے ہیں،ان کی نسلیں اور قومیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ہر انسان کا ایک جنین ہونے کا مرحلہ ہے ،اس کے بعد وہ پیدا ہو کر ماں کی گود میں اس کے دودھ پینے کا مرحلہ ہے،اس کے بعد بچپنہ آنا ہے اور یونہی بڑھتے بڑھتے بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے۔سیکھنے کا عمل ہر مرحلے میں مختلف ہوتا ہے۔بڑھوتری کا عمل اس وقت بہت تیزی سے ہوتا ہے جب جنین کا مرحلہ ہوتا ہے،اس کے بعد  رضایت کا مرحلہ آتا ہے اور اس کے بعد بچپنے کا مرحلہ ہے ،پھر جوانی کی سرعت آتی ہے اور پھر بتدریج بڑھاپے میں تنزل کی طرف چلا جاتا ہے۔

۲۔عقلی تربیت کی قرآنی بنیادیں

۱۔تفہیم کائنا ت اور ذہنی وسعت

انسان کے ذہن کی حیرت انگیز وسعت وہ اہم چیز ہے جس کی طرف فلسفہ اسلامی میں بہت توجہ دلائی گئی ہے۔قرآن کا بھی یہی نظریہ ہے اور قرآن بار بار انسان کی توجہ کائنات کی وسعتوں کی طرف دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ زمین آسمان اور ان میں پائی جانے والی مخلوقات پر غور و فکر کریں۔اس غور فکر میں آپ کائنات کے نظام کو محض اتفاقی نہیں پائیں گے اور کوئی تبدیلی بھی بغیر وجہ کے نہیں ہو گی بلکہ ہر چیز اس کائنات کے خالق یعنی اللہ کی طرف رہنمائی کرے گا۔کوئی چیز ثابت نہیں ہے ہر چیز تبدیلی کی زد میں ہے یہی تبدیلی انسان کو فرحت دیتی ہے اور تسخیر کی دعوت دیتی ہے  کہ انسان غور و فکر کرے اور قرآن کے اس نظریہ تک پہنچ جائے جو وہ کائنات کے بارے میں دیتا ہے۔

قرآن انسان کو وسعت فکر کی دعوت دیتا ہے اور وہ شخص جس کی بصارت کم ہے اور کائنات کی وسعتو ں پر غور و فکر نہیں کرتا ایسے غور و فکر کو نہ کرنے والے شخص کوقرآن حیوانیت کے مرحلے پر رکا قرار دیتا ہے۔ایسے شخص نے کائنات کی وسعتوں پر غور نہ کر کے اپنی قوتوں کا استعمال نہیں کیا  قرآن ایسے لوگوں کے بارے میں کہتا ہے:

((إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ))(سورة الأنفال ـ 22)

اللہ کے نزدیک تمام حیوانوں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

وہ شخص جو اس کائنات کے بارے میں غور و فکر کر کے کوئی رائے نہیں رکھتا اور یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے ؟ اور اسے کہا ں جانا ہے؟یہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں اپنی زندگی کا لائحہ عمل تیار کرے گا جس پر وہ زندگی بھر عمل کرے گا۔علامہ یزدی فرماتے ہیں:انسان کی قیمت قرآن کی رو سے اس کے تصور کائنات پر مبنی ہے یعنی انسان اپنی قوت مدرکہ کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے۔انسان اپنی تفہیم کے مطابق جو نظریہ تشکیل دیتا ہے اس کے مطابق آزادی سے عمل کرتا ہے اور اسی سے ہی وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔

۲۔انسان حیرت انگیز مخلوق

قرآن انسان کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھتا ہے جس کے کئی  پہلو ہیں جیسے روح،نفس اور جسد ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ ‎﴿٧١﴾‏ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ‎﴿٧٢﴾‏))( سورۃ صاد))

۷۱۔ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ ۷۲۔ پس جب میں اسے درست بنا لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔

انسان وہ مخلوق ہے جو اپنی خلقت کے اسرار کو جاننے کی صلاحیت رکھتی ہے ،اسی طرح یہ تعلیم حاصل کرنے پر قادر ہے،یہ عقل اور حواس کے ذریعے معرفت حاصل کرتا ہے اور انسان عقل و حواس کے ذریعے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ذکاوت وہ اہم ترین صفت ہے جو انسان کو باقی تمام مخلوقات پر برتری دیتی ہے۔انسان نے اپنی ذکاوت سے علوم میں بہت زیادہ ترقی کر لی ہےیہ ترقی اور یہ کمال انسان نے اپنی فکر کی قوت سے حاصل کی ہے انسان اپنی ثقافت کو فکر کی بنیادوں پر بناتا ہے۔قرآن انسان کو اس کی سب سے اہم مہارت جو عقل کی مہارت ہے اس کے استعمال پر واردار کرتا ہے اور اس کی صفت زکاوت کے ذریعے اسے عروج تک پہنچانا چاہتا ہے۔اللہ تعالی قرآن میں انسان کی فکر و ذکا کی قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

((وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلاَء إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ))(سورة البقرة ـ 31)

اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

۳۔اخلاقی اقدار کا حصول

قدیم اور معاصر علوم تربیت اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ اخلاقی اقدار کے حصول کا مقصد اور اس کو زندگی میں ایک اہم اور قیمتی قدر کے طور پر اختیار کرنا انسان کی ذہنی پختگی اور نفاست کی علامت ہے۔انسان کی اخلاقی اقدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے اور قرآن اس کی تاکید کرتا ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے یہ اخلاقی اقدار کی اہمیت کی وجہ سےہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْراً لَهُمْ مِنْهُمْ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمْ الْفَاسِقُونَ))( سورة ال عمران ـ 110)

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اللہ کی طرف دعوت دینا مومن کے اہم امور میں سے ہے اور یہ رب کا راستہ ہے۔ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رب کی طرف بصیرت کے ساتھ بلائے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یہ اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر فرض ہے۔انسان کی انفرادی اور اجتماعی تربیت کے لیے اس پر اہم ذمہ داریاں ہیں۔امر بالمعروف کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان  عقلی،اخلاقی اور اجتماعی پر کامل ہو سکے۔

4.مربوط عقلی نظام

قرآنی اصول دیگر تمام اصولوں سے اس لیے ممتاز ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں ان اصولوں میں عقیدہ توحید بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اصول معصوم ہستیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں  پروردگار ارشاد فرماتا ہے:

((ويَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً عَلَيْهِمْ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيداً عَلَى هَؤُلاَء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ))( سورة النحل ـ 89)

اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

معصوم ہستی کے وجود کا تقاضا انسانی عقل اور نقل دونوں کرتی ہیں۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک منظم نظام جو تکامل پذیر ہو اس کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہےجس میں نظریات کو بیان کر دیا گیا ہو اور وہ پرودگار کی طرف سے معین ہو۔

۵۔عقل و وحی کا تکامل

انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت دی گئی ہے مگر عقل جیسی طاقتور نعمت انسان کو وحی سے بے نیاز نہیں کرتی۔حقیقت یہ ہے کہ وحی انسان کے نظریہ عقل کی تکمیل کا باعث ہےعلامہ طباطبائی کا نطریہ یہ ہے کہ وہ عقل جو انسان کو حقیقت کی طرف لے جاتی ہے اور وہ عقل ہے جو انسان کو حکم دیتی ہے وہ عقل عملی ہے جس کے ذریعےعقل خیر و شر کا حکم دیتی ہے اور عقل نظری نہیں جو اشیاء کے حقائق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔عقل عملی اپنے مقدمات کو  انسان کے اندر موجود قوتوں سے حاصل کرتی ہے۔یہ وہ قوتیں ہیں جو ہر انسان میں شروع سے ہی پائی جاتی ہیں جیسے شہوت اور غصہ کی قوت  اور قوت عقل میں ان کو تقویت ملتی ہے۔

۶۔توحیدعقلی تربیت کی اہم بنیاد

توحید کا اصول قرآن کریم کے نقطہ نظر سے وجودیت کی بنیاد ہے،عقل کی تربیت اور معرفت کے لیے اہم ترین بنیاد اللہ تعالی کی توحید پر ایمان رکھنا ہے خدا جو جلالی اور جمالی صفات رکھتا ہے۔ اور آیات مبارکہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جو لوگ اس حقیقت کی معرفت کے درجے تک پہنچ گئے تھے ان کے درجات میں اضافہ ہوا وہ ایسے صرف اس لیے کر سکے کہ انہوں نے تخلیق اسماء و صفات پر غور کیا اور توحید کے نظام میں پروردگار کے احکام کے مطابق چلے۔یہ لوگ دوسروں کے ساتھ توحید پر مناظرہ میں مہارت رکھتے تھے کہ اللہ تعالی وجود رکھتا ہےتوحید کا عقیدہ وہ عقیدہ ہے جو ایک مشترکہ میراث ہےاس کے ذریعے ہی باہمی تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے اور فکری مسائل سے نکلنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ))(آل عمران ـ 64. )

کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔

 صاحب میزان کی تفسیر کے مطابق یہ آیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہر ایک انسان کی ایک ہی سچائی ہے اورمطلق حاکمیت خدا کی ایک خصوصیت ہے۔

وہ لوگ جو توحید پرستی اور خدا کی خصوصی ربوبیت پر بھروسہ کرتے ہیں وہ الٰہی حاکمیت کے تصور کو قبول کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں جو انبیاء ان کے ذہنوں کے لیے لائے تھے۔اس بنیاد پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کا نظریہ اقدار یہ ہے کہ عقلی کی سیاسی و عملی تربیت نظریہ توحیدپر ہوتی ہے پورے کا پورا نظام تربیت ہی نصوص اور مصادر سے ترتیب پاتا ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں انسانی تعلیم و تربیت کے اصول و ضوابط قرآنی اصول و تربیت کے ساتھ متفق ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے بارے میں جو کچھ قرآن کہتا ہے وہ انسانوں نے مختلف اوقات میں سمجھا ہے۔یہ انسان کی بہترین تفہیم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے کی جاتی ہے اور یہ تمام زمانوں اور پہلووں کو شامل ہے۔