یہ بات سب کے ہاں تسلیم شدہ ہے کہ انسان ایک حادث ہے ،جو کسی ایجاد کرنے والے یا بنانے والے کے مرہون منت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان عدم سے وجود کی طرف آیا ہے ،یعنی پہلے نہیں تھا پھر اسے وجود ملا ،جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان یقینی طور پر جاہل اور علم سے تہی دست بھی تھا ۔ پس انسان کا علم بھی خود انسان کے وجود کے ساتھ خود بخود وجود میں نہیں آیا ۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ انسان کے پاس جو علم ہے وہ علم اس کا حاصل کردہ ہے جسے علم اکتسابی کہا جاتا ہے اور اس علم کا حصول انسان کے حواس خمسہ کے ساتھ مربوط ہے جنہیں خالق نے انسان کو عطا کیا، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا علم محدود ہے، کیونکہ اس کے حصول کے طریقے اور زرائع محدود ہیں ۔
عالم شہود
انسان کے لئے علم کو حاصل کرنے کے یقینی طریقے اس کے حواس خمسہ میں منحصر ہیں، دیکھنا ، سننا ، چھونا ، چکھنا اور سونگنا ۔ اگر ان حواس میں سے کوئی ایک فاقد ہو جائے تو انسان اس حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے یقینی علم سے محروم ہو جائے گا ، اور کسی چیز کے بارے میں علم یقینی کہ جس کا ذریعہ حواس خمسہ تھا ،جب حاصل ہونا ممکن نہیں رہتا تو عقل اس میدان میں تخیل کے گھوڑے دڑانے پر مجبور ہو جاتی ہے، ایسی حالت میں عقل اس مطلوبہ چیز کی خیالی صورت بنا لیتی ہے ۔ البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب اس شئی کا کوئی واقعی مصداق ذھن کے پا س موجود ہو، جیسے انسان کا اپنے مستقبل کا کوئی نقشہ بنا لینا یا کسی گزشتہ واقعے کی صورت بنانا کہ جس کے بارے میں اس نے سن رکھا ہے ۔
عالم شہود میں عقلی تخیل کا میدان وسیع اور آزاد ہے ،جس کا نتیجہ بعض اوقات ان تخیلات کا واقع سے دور ہونے کی شکل میں نکلتا ،اس حالت کو غیب نسبی کہا جاتا ہے ، کیونکہ اس میں یہ نقص موجود ہے کہ یہ واقع کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ اس غیاب کی نسبت در اصل ان یقینی علوم کے مقابلے میں کہا جاتا ہے کہ جو حواس خمسہ کے ذریعے واقع کو محسوس کرنے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے ۔
غیب نسبی کی دنیا
عالم شہود میں غیب نسبی اور عقل کے درمیان تعلق کی بنیاد حواس کے دائرے سے خارج امور پر ہوتی ہے ۔ انہی چیزوں میں سے ایک ماضی کے واقعات ہیں، ماضی کی تاریخ کو دقت اور اہتمام کے ساتھ پڑھ کر ہم ان کے صحت و سقم کا پتہ لگا سکتے ہیں، اور انصاف کے ساتھ ماضی کے ان واقعات سے حاضر اور مستقبل کے لئے عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔(لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَاب) (يوسف - 111)، بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے،
خواہ ماضی کی یہ واقعات افراد سے متعلق ہوں یا معاشروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے ۔
اسی طرح بعض حاضر چیزوں کوبھی ہمارے حواس سے غائب ہونے کی وجہ غائب کہا جا سکتا ہے جبکہ وہ ان لوگوں کے لئے غیب نہیں ہیں جو ان چیزوں کو اپنے حواس سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مستقبل بھی حواس خمسہ کی نسبت غائب ہے، لیکن ہمارے پاس موجود امکانات و وسائل اور ماضی میں جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے، ان سب کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مستقبل کو پڑھنا اور اس کے بارے میں پیش گوئی کرنا ممکن ہے
غیب مطلق غیب - نسبی کے مقابلے میں –
جہاں تک غیب مطلق کا تعلق ہے تو وہ عالم ملکوت ہے، جس کے موضوعات کو درک کرنا عقل کے بس میں نہیں۔ نہ حواس کے ذریعے اور نہ ہی کوئی اور راستہ ہے کہ جس سے عقل ان موضوعات تک پہنچ سکے ۔ اسی طرح خیالِ عقلی کو بھی اس سلسلے میں کوئی راہ نہیں ہے، کہ وہ کوئی ان چیزوں کی (کہ جن کا عالم شہود میں کوئی مصداق ہے ہی نہیں ہے) حقیقت کے قریب کوئی ذھنی صورت تشکیل دے سکے ۔ مثلا ذات الہی کا علم ، برزخ کا علم ، قیامت کا علم ، حشر کا علم ،موت اور شفاعت کا علم وغیرہ ۔ ان معاملات میں غیب پر یقین مطلق ہی مطلوب ہے ،یہاں وہم و گمان اور خطا کی کوئی گنجائش نہیں ، اور چونکہ انسانی خیال میں گمان اور خطا کا احتمال رہتا ہے، جس طرح ہم نے عالم شہود میں بیان کیا، پس عقل کے لئے یقین کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ان معاملات میں کہ جو عقل کی ادراک کے دائرے سے باہر ہو اور قوت وہم و خیال کو جہاں تک رسائی ہی نہ ہو ۔ایسے میں عقل کس طرح حقیقت تک پہنچ سکتی ہے ایسے میدان میں کہ جس سے عقل کو پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو ۔،
پس ہمیں عالم شہود میں غیب نسبی اور عالم ملکوت میں غیب مطلق کے درمیان فرق واضح ہونا چاہئے ان الفاظ سے واضح ہوا کہ علم غیب صرف ذات الہی سے مخصوص علم ہے جس میں غیر شامل نہیں (وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ) (الأنعام ـ59)، اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اسی سے ذات الہی کی صفت علیم ہے ،جو ذات الہی سے مختص ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی ذات عین علم ہے اور اس کا علم مسبوق بالجہل نہیں ہے ،اس کا علم حضوری ہے کسبی نہیں، (وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ) (يوسف-76)، اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے
جبکہ مخلوقات کا علم خود ان کی طرح ذات الہی کا خلق کردہ ہے ۔ پس مخلوق علیم ہے تو علم کسبی و حصولی کے ذریعے وہ علیم ہیں ۔ مزکورہ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی محدود استعداد کے ساتھ غیب مطلق کے اسرار کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتا۔ لہذا آیت میں" ذی علم "سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ صفت علم ذات مخلوق کے علاوہ کوئی اورشے ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ علم حصولی و اکتسابی ہے اور مسبوق بالجہل ہے ۔ سوائے ان بندوں کے کہ جن کو خدا نے فضیلت اور باقی مخلوقات سے ان کو ممتاز کرتے ہوئے خاص طور پر اپنے بعض علم کے لئے مختص کیا ہو جیسے انبیاء و رسل اور ملائکہ ۔(وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ) اور وہ علم خدا میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ خود چاہے (البقرة۔255)،یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اپنے بعض بندوں کو چن لیتا ہے تاکہ اس عالم میں کہ جس کو اسباب و مسببات کی دنیا قرار دی گئی ہے ،اپنے بندوں کی ہدایت کا فریضہ ان کے ذمہ لگا دے ۔، (ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون) اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ البقرة-(151 )عقل کے پاس حواس خمسہ کو استعمال کرتے ہوئےغیب مطلق کا علم حاصل کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے ،کیونکہ حواس خمسہ کی اس علم تک رسائی ہی نہیں، اسی طرح خیال کے اندر بھی یہ صلاحیت نہیں کہ غیب مطلق تک رسائی حاصل کر سکے، بلکہ وہم کے دائرے سے بھی غیب مطلق خارج ہے ، پس یہ علم صرف اسی علیم ذات کی طرف سے تعلیم کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ نیز خدا نے اس علم تک رسائی کے اپنے طریقے اور راستے بتائے ہیں جیسے وحی ، الہام یا خواب ، البتہ ان ذرائع کو حاصل کرنے کے اپنے طور، طریقے اور اسباب و آداب ہیں (وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ) اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں تعلیمات سے آراستہ فرماتا ہے (البقرة ـ282، ) (وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ) اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ (البقرة ـ151)
لفظ غیب کن معانی پر دلالت کرتا ہے
(الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ) جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں (البقرة-3)، چونکہ لفظ غیب آیت کریمہ میں مطلق استعمال ہوا ہے اس لئے یہ غیب مطلق میں سے جو کچھ بھی انسان سے غائب ہے ان سب کو شامل ہے ۔ لہذا اس کے مصادیق متعدد ہیں ،جن میں سے مقصود درج ذیل چیزیں ہیں
1 جنت و دوزخ اوران دونوں میں موجود تمام حسی و معنوی لذتیں اور عقوبتیں
2 عالم ملائکہ اور ملائکہ سے مربوط تمام امور جو وہ خدا کے اذن سے انجام دیتے ہیں، جیسے کسی کو موت دینا ، کسی کی حفاظت کرنا ،لوگوں کے افعال کی نگرانی کرنا اوران جیسی دیگر سرگرمیاں کہ جن کے یہ ملائک خدا کی جانب سے مکلف ہیں اور وہ خدا کا حکم بجا لانے میں کسی قسم کی سرگردانی نہیں کرتے ۔
3عالم جنات ، ان کے جنس ،ان کے اعتقادات کہ جن میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ان میں سے بعض اچھے ہیں اور بعض برے
4 ۔ روز حساب ، اس کی مدت اور جو کچھ اس دن وقوع پذیر ہوگا
5۔ بعض لوگ خود ذات الہی کو بھی غیب شمار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ ذات اپنے بندوں سےغائب نہیں ہے ،جیسا کہ قرآنی آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں ،بلکہ یہ آیات خدا کا اپنے بندوں سے قرب معنوی پر دلالت کرتی ہیں ، مثلا : (مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلاَّ هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلاَّ هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلاَّ هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ) کبھی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے اور نہ پانچ آدمیوں کی مگر یہ کہ ان کا چھٹا اللہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ جہاں کہیں ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔ (المجادلة ۔7) وہی ذات تو رازق،مدد گار ،زندگی اور موت دینے والی ہے، پس وہ کیسے غائب ہو سکتی ہے جبکہ یہ تمام افعال اس کے حاضر ہونے پر دلیل ہیں ۔اس کے علاوہ وہ ذات ایسی باخبر ہے کہ اس کے احاطہ علم سے کوئی ذرہ بھی خارج نہیں۔(مَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ) اور (اے نبی) آپ جس حال میں ہوتے ہیں اور آپ قرآن میں سے اللہ کی طرف سے جو تلاوت کر رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ جو عمل بھی کرتے ہو دوران مصروفیت ہم تم پر ناظر ہیں اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔ (يونس-61)، البتہ لوگوں نے اپنے خدا کی نسبت اپنے آپ کو غائب کر دیا ہے جبکہ خدا ان سے غائب نہیں ہے ۔ خدا کیسے غائب ہو سکتا ہے جبکہ وہ انسان کے ہر فعل کا شاہد اور نگران ہے ۔لیکن انسان کے گناہوں بندوں اور خدا کے درمیان حجاب پیدا کر دیا ہے ،پس انسان اپنے برےاعمال کی وجہ سے اپنے آپ کو غائب کر چکا ہے
غیب کے بارے میں عقل کاموقف
ایمان بالغیب کے حوالے سے عقل کا موقف طے کرنے کے دو طریقے ہیں
1۔ عقل کے حدود و امکانات کا جائزہ لیا جانا اور وحی و شرع کی نسبت عقل کی حدود کی شناخت کہ جس میں درج ذیل چیزیں آتی ہیں
أ۔ عالم شہود میں غیب نسبی کی نسبت عقل کی حدود ،
اس کے بارے میں ہم نے پہلے کہا کہ اس عالم میں جب انسان حواس خمسہ میں سے کسی ایک سے محروم ہو جائے اور جس سے حاصل ہونے والا علم سے یقین حاصل کرنا ممکن نہ ہوتوعقل اس محسوس شئی کا آزادانہ تخیل کا سہارا لیتی ہے ۔ اس صورت میں اس شئی کےبارے میں جو علم ہوگا وہ ظنی و تخیلاتی ہوگا جو کہ واقع سے دور یا اس کے بالکل مخالف بھی ہو سکتا ہے ۔اور یہ عالم شہود میں جائز ہے۔
ب۔ عالم ملکوت اور غیب مطلق کی نسبت عقل کی حدود ،
اس میدان میں حواس خمسہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ یہ میدان حسی اور تخیلاتی حدود سے خارج ہے ۔ لہذا اس سلسلے میں ضروری تھا کہ انسان کو وہ خالق خود تعلیم دے کہ جو اپنے بندوں کی ضروریات، استعدادت اور احتیاجات سے مکمل باخبر ہے، پس انبیاء کو بشیر و نذیر قرار دے کر بھیجنا در اصل انسان کو خدا کی طرف سے عالم ملکوت کی تعلیم کا واسطہ تھا، جن کے ذریعے مخلوقات کو ان کی حیثیت اور قدرت کے مطابق شرعی احکام و حدود متعین کئے گئے ۔.
2۔ دوسرا منہجِ عقل کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ جس طرح عالم شہود محسوسات کو درک کرنے اور تخیل کرنے میں عقل کی کوئی حد معین نہیں ہے، اسی طرح عقل میں یہ قدرت ہے کہ ہر چیز کو اپنے سامنے تسلیم کرے، یہاں تک کہ عالم غیب مطلق کے جن چیزوں کے بارے میں انبیاء نے خبر دی وہ بھی دائرہ تصرف سے خارج نہیں ہیں، ان کے نزدیک اس بات سے کوئی مانع نہیں ہے کہ عالم غیب کا انکار کیا جائے اور عقل اپنی نسبت کسی خاص عالم غیب کا تصور کرے اور تخیلاتی عالم غیب تشکیل دے۔
عادل مشکور الظویھری