فکر ِاسلامی کا انسانی تہذیب کی ترقی میں اہم کردار ہے اس نے جدید تہذیب کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج رابطے کے ذرائع بہت زیادہ ترقی کر گئے ایک کلک پر ساری معلومات دستیاب ہیں اور یہ فطری بات ہے کہ جب تمام دنیا رابطے میں ہے تو اسلامی فکر اس تہذیب پر اثر انداز ہوتی ہے ۔عقل انسانی کے احترام کی بات کی جائے کہ جو انسان کی بڑی طاقت ہے اسلام انسان کو حقیقت تک پہنچنے کے لیے دنیا اور خود اپنے اندر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(فصلت ۔۵۳)
م عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے رب کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟
اس مشاہدے کے نتیجے میں معلومات آتی ہیں اور ان معلومات پر مسلمانوں کے ہاں سوالات و اشکالات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔پس غور و فکر کرنا ایک ضروری اور لازمی چیز ہے تاکہ ان عقیدتی اور فقہی سولات و اشکالات کے مناسب جواب دیے جا سکیں جو اذہان میں آ گئے ہیں تاکہ لوگوں کو جواب ملیں اور ان کا اسلام کے بارے میں یقین اور بڑھ جائے۔لوگ جواب نہ ملنے کی وجہ سے حیرت میں مبتلا نہ ہو کیونکہ اگر فکر نہیں کریں گے تو عقل سے جواب بھی نہیں ملے گا اور ایک مسلمان کے پاس سوالات تو ہوں گے جواب نہ ہوں گے یوں وہ متحیر ہو جائے گا۔اس طرح مسلمانوں کے ذہن میں موجود سوالات اور ان کی عقیدت میں ٹکراو پیدا ہو جائے گا یعنی سوال شک کا کہے گا اور عقیدت ماننے کا کہے گی۔
اس لیے متن سے استدال کرنا اور سوچنا مسلمانوں کے لیے اطمنان کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ ہر لحظہ سوال کا مکمل جواب لے رہا ہوتا ہے۔
سوچنے والے خاص طور پر عالم اسلام کو درپیش فکری و ثقافتی ترقی میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دیتے ہیں تاکہ مسلمان فکری،نفسیاتی اور معاشی بہتر ہو سکیں اور ترقی کر سکیں۔غیر ضروری رد عمل سے دور رہنا ضروری ہے ، جو بعض اوقات افسانوی حد تک پہنچ جاتا ہے ، جہاں الٹا ردعمل مذہب سے نفرت اور دوری کا سبب بنتا ہے۔ خاص طور پر الحاد کی موجودہ لہر کے بعد تو احتیاط اور بھی ضروری ہو گئی ہے۔ وقت گزرنے اور آنے والی ثقافتوں کے ذریعے مسلمانوں نے علم و تجربہ کو لیا ہے انہوں نے بیکار چیزوں کو چھوڑ کر اچھی چیزوں کو لیا ہے۔یہ بیکار چیزیں عام لوگوں کے اعتقادات کو ہلا کر رکھ دیتیں،لہذا مذہبی عبارت کو عقلی انداز میں سمجھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ حقیقی خطروں سے اسلام کے عقائد کا تحفظ کیا جائے ، نیز مسلمانوں کو ان تمام الجھنوں اور غلط فہمیوں سے بچایا جائے۔اس کے مقابل دیکھتے ہیں تو دینی نص کا مکمل سمجھنا بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کی ایسی غیبی جہات ہیں جن کو عقل درک نہیں کر سکتی کیونکہ عقل ان کو سمجھنےسے قاصر ہےقرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ(رعد۔۸)
اور اس کے ہاں ہر چیز کی ایک (معین) مقدار ہے۔
جیسے مطلق علم غیب کا مسئلہ ہے اسے اللہ اور جسے وہ تھوڑا بہت بتائے اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جان سکتا قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (سبا۔۳)
اور کفار کہتے ہیں: قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہدیجئے: میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔
اسی وجہ سے نص کو سمجھنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرناچاہیے اوریہ دراصل عقل کا احترام بھی ہے۔خاص طور پر ان مقامات پر جہاں اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے یہاں ان لوگوں کو منع کیا جا رہا جو اسے محدود کرتے ہیں ، اس کےدائرے کو تنگ کرتے ہیں،اس کے لیے ممنوع دائروں کو تشکیل دیتے ہیں اور بعض جگہوں پر اس کے لیے حرمت کے قائل ہیں۔یہ لوگ عقل کی تخلیقی صلاحیتوں میں رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ رکاوٹ بننا نص قرآنی کے خلاف ہے جس کے مطابق اللہ نے اسے اعلی شان دی ہے اور اس سے مطالبہ کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو اس میں تدبر کرنا ہے اور جو سب سے بہتر ہو اس کی پیروی کرنی ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ )) (الزمر -18)
جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہیں۔
قرآن اور اس کی آیات میں تدبر
قرآن نے انسان کے بارے میں کہا وہ ہر حال میں سوچتا ہے، اس سوچ کے نتیجے میں سوالات و اشکلات کرتا ،وہ ان کے شافی جوابات چاہتا ہے تاکہ اس کی علمی پیاس بجھے۔ یہ جوابات قرآن مجید کی آیات کےدرمیان موجود ہیں ارشاد باری تعالی ہے:
((وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ)) (النحل-89)
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔
اب عقل کو استعمال کرتے ہوئے ان موجود جوابات کو تلاش کرنا ہے اسی لیے قرآن مجید ہمیشہ تدبر کی دعوت دیتا ہے :
((أفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا)) (محمد-24)
کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟
اس میں وہ تمام خزانے موجود ہیں جو کسی بھی انسان کی معرفت کامل کے تمام مراحل کو لیے ہوئے ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے ہیں جو ہر چیز کے جاننے والا ہے اور جس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب طالب علم ہے اور اس کی محتاج ہے۔
((.........وفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ )) (يوسف-76)
اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔
اللہ کے علم کی کوئی انتہا نہیں ہے اور وہ ہرچیز کے جاننے والا ہے۔
ہمارے لیے قرآنی قصوں میں اس کا بیان موجود ہے اور وہاں اس کی بہت مثالیں دی گئی ہیں۔اللہ تعالی ان قصوں کے ذریعے ہمیں تعلیم دے رہا ہے کہ ہم نے عقل کو معلومات کے حصول کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے اور کیسے ان کو مسلمات کے طور پر نہیں لینا ؟کہ کوئی سوال نہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی غور و فکر کیا جائے۔اللہ کے نبی حضرت ابراہیمؑ بہترین مثال ہیں جب انہوں نے سوال کیا کہ اے اللہ مجھے بتاو کہ تم کیسے خلق کرتے ہو تاکہ اس سے میرا دل مطمئن ہو اور میں مشاہدہ و علم کے ساتھ ایمان لاوں اور میرا یہ یہ ایمان مسلمہ ایمان ہو۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان عمل ِتخلیق کو سمجھنے کی قدرت و صلاحیت رکھتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا واعلم أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)) (البقرة-260)
اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا : میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، فرمایا: کیا آپ ایمان نہیں رکھتے؟ کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان مل جائے، فرمایا: پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تیزی سے آپ کے پاس چلے آئیں گے اور جان رکھو اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
اسی طرح اللہ انسان کو توحید خالقیت کی تعلیم دینا چاہتا ہے یہ توحید بھی عقلی اور فلسفی بحث کے بغیر ماننے کا نہیں کہا حالانکہ توحید انسان کی فطرت میں داخل ہے جیسا کہ ارشاد باری ہوتا ہے:
((فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ )) (الروم-30)
پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
حضرت ابراہیمؑ اس عقلی بحث کے بہترین مصداق ہیں جب انہوں نے عجز کا اقرار کر لیا تاکہ ہدایت الہیہ تک پہنچ سکیں جو اصل منزل ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
((فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ )) (الأنعام -76-79)
چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے: میں غروب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۷۔پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔ ۷۸۔پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔ ۷۹۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
عقل کو کمزور کرنے میں انتہا پسندی کا کردار
انتہا پسندوں کا اسلام عقل کی نفی کرتا ہے اور اسے علم و تحقیق میں کمزور کرتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل کا استعمال عقیدے اور فقہ میں ان کی کمزوریوں کو واضح کرتا ہے،عقل کے استعمال کی نفی کر کے وہ اپنے مزعومہ ایمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ان لوگوں کے پاس اہل عقل کے اعتراضات کے جوابات دینے کے لیے کوئی قوی دلیل و حجت نہیں ہوتی۔اہل عقل کی یہ دلیلیں قرآن اور سنت معتبرہ سے حاصل کی ہوتی ہیں وہ سنت جو قرآن کے موافق ہوتی ہے اور ان عقل دشمنوں کے عقیدے کے خلاف ہوتی ہے اور اس کو باطل کر رہی ہوتی ہے۔ ان کے بہت سے عقائد قرآن کی نصوص کے خلاف ہیں جیسے تجسیم اور تفویض کا عقیدہ رکھنا ۔قرآن دعوت دیتا ہے کہ مسئلہ توحیدمیں عقل کو استعمال کرو اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ توحید جو دین کی بنیاد ہے۔جہاں تک فقہی مسائل کی بات ہے تو عقل عقیدہ میں جبر کرتے ہوئے کسی کے قتل کی مخالفت کرتے ہیں اورہ یہ جہاد کے نام پر قتل کرتے ہیں حالانکہ دین دعوت دینے کا نام ہے اور قرآنی آیات کے مطابق اس میں کسی قسم کا اکراہ نہیں ہےقرآن مجید میں اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے:
((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )) (البقرة-256)
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
اسلام حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے سے دین کی دعوت دینے کا حکم دیتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
((ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل-125)
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
اسلام کی دعوت دینے کے بعد یہ اس شخص کی مرضی پر ہے کہ اسے قبول کرے یا قبول نہ کرے ارشاد ربانی ہوتا ہے:
((وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا)) (الكهف-29)
اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی دادرسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین ٹھکانا ہے۔
قبول اور رد کا نتیجہ آخرت میں اللہ کے ہاں معلوم ہو گا کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دنیا میں قیامت کی طرح سزا و جزاء کا میزان لگا لے اللہ نے یہ اختیار کسی کو نہیں دیا ہے اور اسی کو عقل قبول کرتی ہے اور موافقت کرتی ہے
نص اور عقل کے درست استعمال کی ضرورت
اللہ تعالی کی یہ حکمت ہے کہ عقل وہ ذریعہ ہے جس سے انسان معرفت حاصل کرتا ہے،اللہ تعالی حکیم ہے اس کا کوئی کام بے فائدہ نہیں ہوتا اور عقل کو تو اس نے اتنی بلند منزلت دی ہے کہ اللہ نے مجنون سے شرعی ذمہ داریوں کو ہٹا لیا ہے کیونکہ اس میں عقل نہیں ہوتی اور اللہ تعالی انسانوں سے ان کی عقل کے مطابق حساب کرتا ہے کہ اس نے آسمان سے نازل ہونے والی ہدایات پر کیسے اپنی عقل کی روشنی میں عمل کیا۔قرآن تدبر کی کتاب ہے اس پر تدبر نہ کرنے والے وہی ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے اور اللہ نے ان کی اس مرض کو بڑھا دیا ہے۔
جیسا کہ عقل کے ذریعے ہی وہاں بھی بات کی جاتی ہے جہاں قرآن کے علاوہ نص کا مورد ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے اہل بدعت، احادیث گھڑنے والے اور محرف لوگوں نے احادیث بنا لی ہیں۔نبی اکرمﷺ کا ارشاد اسی کو واضح کرتا ہے:لوگوں نے میری طرف بہت زیادہ ایسی باتیں منسوب کردی ہیں جو جھوٹ ہیں،جو جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا وہ جہنم میں جائے گا۔
یہ تو نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ہو چکا تھا اب تو اس سے زیادہ ہو گا۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں عقل کے ذریعے نص قرآنی میں تعقل اور تدبر کرنا چاہیے اور اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔اس کے ذریعے الہی احکامات پر عمل کرنا چاہیے اور اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں۔اسی طرح قرآنی آیات کا ظاہری معنی ہے اور ان کے باطنی معانی بھی ہیں۔کہا گیا ہے کہ اس کے سات ظاہری معانی ہیں اور سات ہی باطنی معانی ہیں۔عقل کی جدوجہد اور غور و فکر کے نتیجے میں ہی ان معانی کا پتہ چلتا ہے جب ان معانی اور مقاصد کی بحث کی جاتی ہے اور ان علتوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔یہ توعام آیات کی بات ہے آیات متشابھات کا موضوع الگ ہے جو قرآن میں آئی ہیں۔اسی طرح قرآن میں محکم آیات بھی ہیں تاکہ جو کچھ ہماری طرف بھیجا گیا ہے ہم اس کو سمجھ سکیں یہ سارا عمل عقل کے ذریعے ہی ہوگا۔
آخر میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم عقل کی طاقت کو محدود مانیں،عقل غیب کا احاطہ نہیں کر سکتی یہ اس کی طاقت سے باہر ہے اس سے عقل کی محدودیت کا پتہ چلتا ہے اور ہمیں اس کی طاقت میں مبالغے سے رک جانا چاہیے اور اعتدال کا راستہ بھی یہی ہے کہ ہر چیز کو اس کا حق دیا جائے۔