- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام میں سیاسی قیادت ۔۔امام علی علیہ السلام کا اپنے گورنر کے نام خط۔۔ (بطور نمونہ)
3 ذو الحجة 1442هـ

اسلام میں سیاسی قیادت موجودہ یا قدیم زمانہ میں بشری قیادتوں سے مختلف ہے اسی دور سے کہ جب ایسا نظام قائم ہوا جو اجتماعی معاملات کو منظم کرنے اور انکے کے لیئے قانون بنائے اور جب سے معاشروں کی قیادت کرنے والے روحانی یا سیاسی قیادتوں کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اس اختلاف کی وجہ دونوں کے مابین تباین اور تضاد ہے ان میں سے پہلا دونوں کے مابین منھج کا اختلاف ہے کہ جس پر روحانی یا سیاسی قائد کو جینے کا طریقہ موقوف ہے کیونکہ اسلام الہی ھدایت کی منھج پر اعتماد کرتا ہے جس میں سیاسی اور روحانی دونوں پہلو باہم دیکھے جاتے ہیں جسکی سرحدیں اور وسعتیں عالم دنیا سے لے کر عالم آخرت تک پھیلی ہوئی ہیں

(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا) (النساء - 57)

"اور جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے ہم عنقریب انہیں ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے وہاں انکے لیئے پاکیزہ جوڑے ہونگے اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں داخل کریں گے"

برخلاف وضعی سیاسی نظریات کے جن کا ہم وغم فقط دنیا ہے اور یہ فقط دنیاوی سعادت کے پیش نظر اور اخروی دنیا سے بلکل نا بلد ہوکر اپنے عوام کی سہولت کی کیفیات پر بحث کرتے ہیں کیونکہ اخروی دنیا کی بابت تفکیر ان کے اختصاص شعبوں میں سے نہیں ہے اور نہ ہی انکی بساط میں ہے کہ خود کو اس تفکیر میں مشغول کر سکیں ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ یہ سیاسی نظام بشری محدود افق عقل کی اسیر ہیں  جو صرف اس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں اس کے لیئے سیاسی سلیقے بنا سکتے ہیں اور یونہی دنیوی رنگ انکے سیاسی قائد جو انکے معاملات کا سربراہ کو گھیرے ہوئے ہیں اور دنیا سے مربوط رہنا اسکی قیادت کی ترجیح ہے۔ کیونکہ اسکی  قیادت عالم دنیا ہی کے بشری معاملات میں لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے اور انکے دنیوی معاملات پر فوکس کرنے کی پابند ہے اور وہ اس سے کبھی بڑھ نہیں سکتی تاکہ اسکے ذریعے وہ اس طریقہ کار کے لیئے ہم آہنگ وہم افق ہوسکے جو دین نے اپنی قیادت کے لیئے مقررکیا ہے ۔

اسی وجہ سے اور اسی  ظاہری اختلاف کے پیش نظر اسلام میں الہی انتخاب  یعنی روحانی اور سیاسی قیادت کے انتخاب میں اس شخص کے لیئے اساسی شرط  ہے کہ جو امور مسلمین کی ولایت سنبھال رہا ہے خواہ وہ مقام نبوت ہویا کہ مقام امامت اور یہ دونوں اللہ کے منتخب  بندوں ہی میں منحصر ہے  ۔

(وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ) (البقرة-124)،

"جب رب ابراہیم علیہ السلام نے ابراہیم ؑ کو کلمات کے ذریعے آزمایا پس ابراہیم ؑ نے کلمات مکمل کر لیئے تو اللہ نے کہا میں تمہیں لوگوں کے لیئے امام مقرر کر رہا ہوں اور ابراہیم ؑ نے پوچھا  میری نسل میں بھی امامت ہوگی تو اللہ نے فرمایا میرا یہ منصب ظالمین   کو نہ مل پائے گا "          

نبی ابراہیم ؑ نبوت کے ذریعے قائد تھے اور بعد انکو مقام امامت کے ذریعے نوازاگیا اور اس مقام کی عظمت کے باعث  حضرت ابراہیمؑ نے اپنی نسل کے لیئے اسکا مطالبہ کیا اور ان دونوں منصوبوں کا مقصد یہ ہے کہ دینی اور سیاسی قائد ہر قسم کی غلطی سے پاک اور ہر اس لغزش سے پاک و مبرا ہو جو لوگوں کے مابین سیاست کرتے وقت ممکن ہوسکتی ہے اور آسمانی نقطہ نظر اور منھج کے مطابق یہ عصمت اسکے عمل میں برابر موجود ہوتی ہے۔ نبوت و امامت دونوں عصمت کی بنیاد پر ہی ملتی ہیں کہ جو صراط حق مستقیم کی ترجمانی کرتا ہے ۔

(الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا )) (الكهف-1)

"تمام حمد اس اللہ کے لیئے جس نے اپنے بندہ پر کتاب کو نازل کیا اور اسکے لیئے کوئی ٹیڑھا پن نہیں رکھا اور جسے بھیجا گیا ہے وہ اس عالم اور قدیر کی طرف سے ہے جو لوگوں کی حیات دنیویہ اور اخرویہ دونوں کا جاننے والا ہے اور گزشتہ مطلب کے بعد واضح ہوگیا کہ ان سیاسی اور روحانی زعماء کی اطاعت مطلق شکل میں اور بناکسی قیدو بند کے ایسا فریضہ ہے جس پر قرآن نے تاکید کی ہے اور واضح نص کے لیئے بیان فرمایا اور یہ انکی عصمت کے ساتھ سازگار اور انکے الہی انتخاب ہونے پر تاکید ہے ۔

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ......) (النساء-59)

"اے اہل ایمان اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسولﷺ کی اور انکی جو تم میں سے اولی الامر ہیں "

اور کبھی ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ واضح کریں وہ کون شخصیات ہیں کہ اسلام میں جن کے اندر الہی سیاسی اور روحانی قیادت مجسم ہے۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ محمد بن عبد اللہ ﷺ کی ذات میں یہ مجسم ہوئی کہ جو قائد اول تھے جنہوں نے مدینہ منورہ میں اسلام کی حکومت کی اساس رکھی  اور انکے بعد سیاسی و دینی سربراہی بارہ آئمہ اھل البیت علیھم السلام کی سپرد ہوئی۔ جسکی ابتداء امام ِ اول امیر المومنین علی  علیہ السلام سے ہوئی جنہوں نے اپنی حکومت کو تاسیس فرمایا اور اسکا دار الحکومت کوفہ کو مقرر فرمایا  اور جسکی انتہاء بارھویں امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پر ہوتی ہے جو ان شاءاللہ اپنی سربراہی میں عدل الہی پر مشتمل  حکومت بنائیں گے ۔ ۔

یہاں ہم اسلام اور وضعی سیاسی نظاموں کے مابین دوسرے اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سیاسی نظام مختلف ناموں سے یاد کیئے جاتے ہیں کیونکہ اسلام کا ھدف سب سے پہلے انسان کی سعادت ہے انسان بحیثیت فرد یا معاشرہ ہر دو اعتبار سے بنا اسکے شخصی ہوں یا معاشرہ کی نسبت سے اسکے مفادات شمار کیئے جاتے ہوں کہ جس معاشرہ کا یہ حصہ ہے کیونکہ اسلام تمام لوگوں کو مساوات کی نظر سے دیکھتا ہے اس لیئے اسلام  میں قیادتوں کا انتخاب ،عدل کو نشر کرنے اور لوگوں کے درمیان مساوات برقرار رکھنے کی بابت جو الہی منصوبہ ہے اسکے تناظر   میں کیاجاتا ہے اور دوسرے کسی بھی معیار کو مسترد کیا جاتا ہے جیسا کہ ایک گروہ کے مفادات پر پورا اترنے والے کا (انتخاب)یا کسی لیڈر اور اسکی پارٹی کا انتخاب دوسری پارٹیز پر جیسا کہ یہ موجودہ سرمایہ درانہ نظاموں میں رائج ہے اور عسکری ڈیکٹیٹر شپ کے نظاموں میں جو انقلابات کے سہارے لوگوں پر مسلط ہوجاتے ہیں یا جیسے ایک پارٹی کی حاکمیت جو مسکین عوام کے پیسے سے مقتدر حلقوں کو ثروت مند بناتی ہے اور یہ سب اپنی ذات یا حاکم طبقہ کی انانیت پر مبنی فکر کا نتیجہ ہے یا اس طبقہ کی انانیت جو جبر کے سہارے عدل و مساوات کے اصولوں کو عوام کے لیئے مسترد کرتے ہوئے سیاسی قیادت کی جانب سے برے ارادے کو پورا کرتے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اس سب سنجیدہ بنیادوں پر نوٹس لیتا ہے ۔

اسی طرح سیاست اسلامیہ ،وضعی سیاسی نظاموں سے اپنے نظام کو نافذ کرنے کے وسائل  کے لحاظ سے بھی مختلف ہے کیونکہ دینی سیاسی قیادت معصوم کے پاس ہوتی ہے جو اخلاقی وسائل اور اسلامی منھج جن قانونی وسائل کو لیئے ہوئے ہوتی  ہے   انکا سہارا لیتا ہے۔ تاکہ اسلام کی اخلاقی منھج سے دوری میں ڈالنے والی ذاتی مفادات یا نسلی مفادات سے پرہیز کرتے ہوئے  اسلامی قوانین کو صددرصدر نافذ کرنے پر  امین بن سکے ۔جیسا کہ بعض وضعی سیاسی نظریات میں ہے جو (مکیا فلی)مذہب پر اعتماد کرتے ہیں جو کہ ہر ذریعے سے کسی بھی ذریعے سے مقاصد کے حصول کا جواز دیتا ہے ۔    

اسی قانون پر تمام سیاسی نظام عمل پیرا ہیں اور یہ اس لیئے ہے کہ وہ اپنے سیاسی افق میں کم و ناقص اور اخلاق سے دور ہیں اور یہ نظام اس انانیت اور طبقاتی سوچ کا نتیجہ ہے جو حاکم کے مفادات پورے ہوجانے اور اس کی حکومت کے ستون استوار ہوجانے  کے بعد ختم ہوجاتی ہے  اور انکے ہاں یہی انتہائی ھدف ہے جو ان سے امید کیا جا سکتا ہے کیونکہ انکے ہاں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیئے ذرائع و وسائل کا اخلاقی ہونا کوئی قیمت نہیں رکھتا کس قدر بدسکونی ہے ،کتنے انقلاب آئے  جدیدو قدیم تاریخ گواہ ہے کہ کتنی عالمی جنگیں برپا ہوئیں اور یہی بہترین دلیل ہے کہ حکومتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے ذرائع اخلاقی ہونے کو مد نظر نہیں رکھا اگرچہ مسلط حاکم نظام نے کسی اخلاقی اور مناسب شعارات و نعرے بلند کیئے تاکہ اسکے دعووں کا جھوٹ واضح ہوگیا کیونکہ انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر جنگوں میں اور عام حالات میں بھی بدترین جرائم کا ارتکاب کیا ۔

جیسا کہ ہمیں سیاسی قیادت کے بارے اسلامی منھج  کے درمیان اور ہر اسکے درمیان جو دعوی رکھتا ہے کہ اسکی اسلامی ہے واضح فرق کو ترک نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ جو الہی نمائندہ ہوتا ہے اور اخلاقی منھج کے مطابق حکومت چلاتا ہے اسکا ھدف اسلامی دستور یعنی قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے مابین الہی عدل و مساوات کا بول بالاکرنا ہے  اور جو اسلامی حکومت کے دعوے دار ہیں وہ اگرچہ بعض اھداف میں اسلامی روش کے قریب ہوتے ہیں لیکن پورے طور پر اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے  کیونکہ ان ممالک میں قائم قیادت کا نصاب پورا کرتی ہو اور بس صرف رسول اللہﷺ اور امیر المومنین  امام علی علیہ السلام  کی قیادت کو استثناء حاصل ہے کہ جب امام علیہ السلام کوفہ کو دارالحکومت بنا کر خلافت کر رہے تھے اور اسی طرح باقی آئمہ معصومین علیھم السلام کو استثناء حاصل ہے کہ جب وہ عباد وبلاد کے سیاسی معاملات کی لجام اپنے ہاتھوں میں رکھتے تھے اور انکے علاوہ باقی حکومتیں خواہ وہ جتنے بھی دعوی کریں کہ انکی حکومت اسلامی اور قائد اسلامی ہے تو وہ محض ایک کاوش کے علاوہ کچھ نہ تھیں کسی جہت سے وہ اسلامی حکومت کے قریب بنتی ہیں تو دوسری جہت سے اسلامی طرز حکومت سے بعید اور ہم ان حکومتوں کے اسلامی ہونے کا انکا ر رکھتے ہیں البتہ کبھی آپ بہت سے ایسے زاویے  بھی دیکھیں گے جنکے تناظر میں یہ حکومتیں اسلامی منھج کے قریب شمار کی جاسکتی ہیں لیکن پھر بھی یہ الہی حکومت نہیں ہیں جیسا اللہ چاہتا ہے   کیونکہ کئی ایسے پہلو ہیں جن کے ہوتے ہوئے اسلامی نمونہ سیاست اور برنامہ قابل اجراء نظر آتا ہے جسکے باعث ان ریاستوں کو اسلامی سیاست شمار کرنا مشکل ہے کیونکہ   یہ حکومتیں کبھی ناکامی یا کم فہمی یا حاکم کی جانب سے عمداغلط منصوبہ بندی کا شکار ہیں جسکے نتیجے میں اسلام بہت دور ہوجاتا ہے اور ہمارے پاس کئی تاریخی شواہد ہیں  ایسی سیاسی پارٹیز یا معاہدین یا گروہوں کے متعلق جو اسلامی افکار کے سامنے سر تسلیم خم رہے لیکن متاسفانہ حقیقی اسلام کا چہرہ پیش کرنے  میں انکے سربراہان ناکام  واقع ہوئے سو وہ شکست خوادہ ہوئے اور اجتماعی ،سیاسی اقتصادی مسائل کے باعث ٹوٹ گئے جو انکی اپنی نظر  اور ہدایات سے متصادم تھے یا وہ انہی کے مطابق انکے مخالف تھے اور در نتیجہ وہ پارٹیز ان نقصانات کی تلافی نہ کر سکنےکے باعث ناکام ہیں ۔

امام علی علیہ السلام کا  اپنے والی مصر کے نام خط:

اسلام میں سیاسی اور روحانی قیادت ،اسکے چنیدہ (منتخب)بندوں کے بارے میں الہی انتخاب ہے اور وہ قائدین و سربراہان الہی ارادہ کے تحت معصوم ہوتے ہیں کیونکہ انکا شرعی وظیفہ اسکی بات کا تقاضا کرتا ہے  کیونکہ کسی غیر معصوم کے لیئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اسلامی منھج کا ترجمان ہوسکے البتہ معصوم کو یہ اختیار ہے کہ جس شخص کا وہ اسلامی منھج کا ترجمان ہوسکے البتہ معصوم کو یہ اختیار ہے کہ جس شخص کا وہ تذکیہ کر چکا ہو اور اس میں اللہ اور دین کے بارے میں اخلاص کا یقین رکھتا ہو اسے ذیلی قیادتوں کے لیئے معین کرئے ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام الہی سیاسی وروحانی پیشوا تھے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مقام امامت کے منصب پر فائز اسلامی قیادت کی سب سے بہترین مثال تھے البتہ آپ ؑ نے سقیفہ اولی کے انقلاب اور چھ رکنی سقیفہ شورائی  کے بعد اپنی سیاسی قیادت کو عملی فرمایا اس معصوم قیادت کے اسلامی معصوم روش کے ساتھ اتحاد کو ثابت کرنے کے لیئے ہم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب سے اپنے والی مصر حضرت مالک اشترؒ کو ارسال کردہ خط کے بعض اقتباسات پیش کرتے ہیں کہ بجاطور پر یہ خط اقوام متحدہ کے رسمی چارٹر برائے انسانی حقوق کی مانند معتبر ہے اور حقیقت  یہ ہے کہ یہ خط انسانی ،سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی معاملات کے حل پر مشتمل ایک کامل دستور ہے اسی وجہ سے ہم اپنی اس تحقیق میں اسکے بعض حوالہ جات پیش کریں گے اور کچھ منتخب پیراجات ملاحظ کریں تاکہ اسکے مطالب و مضامین پر روشنی ڈالی جاسکے ۔

1:انسانیت کے لحاظ سے ۔۔۔۔اور جو اصلاح نفس سے مربوط ہے ہم دیکھتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام اپنے والی حضرت مالک اشترؒ  کو وصیت فرماتے ہیں کہ "اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اسکی فرمانبرداری کو مقدم کرو اور اس نے اپنی کتاب "قرآن " میں جن سنن و فرائض کا حکم دیا ہے اسکی اتباع کرو کہ جن پر عمل کرنے والا ہی خوش بخت ہے اور اسکو ضائع اور انکار کرنے والا ہی شقی وبخت ہے اور اپنے ہاتھ ، دل اور زبان سے اللہ کی مدد کرو کیونکہ بے شک اس بابرکت ذات نے اسکی مدد کی ذمہ  داری اٹھا رکھی ہے جو اسکی مدد کرئے اور اسکو عزت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے جو اسکی عزت کرئے ۔

2:اپنی رعایا کو اہمیت دینے اور انکےساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے متعلق امام علی علیہ السلام نے اپنے گورنر کو یہ وصیت فرمائی "اپنے دل کو اپنی رعایا کے لیئے رحمت ،لطف اور محبت کا احساس دلواواور پرگز اپنی رعایا کے لیئے اس خوبخوددرندے کی مانندنہ بن جاتا جو انہیں چیڑ بھاڑ کر کھانے کو اپنے لیئے غنیمت سمجھتا ہے  کیونکہ لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں یا تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں یا وہ خلقت میں تم جیسے ہیں ان سے لغزشیں بھی ہوں ،خطاؤں سے بھی انہیں مسابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں جان بوجھ کر یا بھولے  چوکے  سے غلطیاں بھی ہوں گی۔

3:جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے مالک اشتر ؒ کو لوگوں کو انکا انصاف دینے اور ہر صاحب حق کو اسکا حق دینے کی ہدایت فرمائی "اور تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکردار دونوں برابر نہ ہوں ۔

اس لیئے کہ ایسا کرنے سے نیکوں کو نیکی سے بے رغبت کرنا اور بروں کو بدی پر آمادہ کرنا ہے ہر شخص کو اسکی منزلت  پر رکھو جسکا وہ مستحق ہے "

4:جیسا کہ آپ نے مالک اشترؒ کے لیئے شوری سے چلنا ضروری قرار دیا کہ علماء اور حکماء کی مشاورت سے چلیں تاکہ رعایا کے معاملات اصلاح پر گامزن ھوں "اور اپنے شہروں کے اصلاحی امور کو مستحکم کرنے اور ان چیزوں کے قائم کرنے میں کہ جن سے اگلے لوگوں کے حالات  مضبوط رہے تھے علماء اور حکماء کے ساتھ باہمی مشورہ اور بات چیت کرتے رہنا "

5:جیسا کہ آپؑ نے حضرت مالک اشترؒ کو بتایا کہ معاشرہ میں طبقات ہوتے ہیں جنکے باہمی تعلقات قدرےپیچیدہ ہوتے ہیں جنکا حل صرف اسی طرح ہی ممکن ہے  اور وہ تمہیں معلوم ہوناچاہیئے کہ رعایا میں کئی طبقات ہوتے ہیں جن کی سودو بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ان میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی  راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے ،دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی و خصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ہے ،تیسرا طبقہ انصاف کرنے والے قضاۃ کا ہے ،چوتھا حکومت کے وہ عمال ہیں جن سے امن اور انصاف قائم ہوتا ہے ،پانچواں خراج دینے والے مسلمان اور جزئیہ دینے والے زمینداروں کا ،چھٹا تجارت پیشہ اور اھل حرفہ کا ،ساتواں فقراء و مساکین کا وہ طبقہ کہ جو سب سے پست ہے اور اللہ نے ہر ایک کا حق معین کر دیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اسکی حدبندی کر دی اور وہ مکمل دستور ہمارے  پاس محفوظ ہے

پہلا طبقہ:فوجی دستے ،یہ بحکم خدا رعیت کی حفاظت کے قلعے،فرمانرواوں کی زینت،دین و مذہب کی قوت اور امن کی راہ میں رعیت کا نظم و نسق انہی سے قائم رہ سکتا ہے اور فوج کی زندگی کا سہارا وہ خراج ہے جو اللہ نے اس کے لیئے معین فرما دیا ہے کہ جس سے وہ دشمنوں سے جہاد کرنے میں تقویت حاصل کرتے اور اپنی حالت کو درست بناتے اور ضروریات کو بہم پہنچاتے ہیں پھر ان دونوں طبقوں کے نظم و بقاء کے لیئے تیسرے طبقے کی ضرورت ہے کہ جو قضاۃ ،عمال اور منشان دفاتر کا ہے کہ جن کے ذریعے باہمی ماھدوں کی مضبوطی اور اخراج اور دیگر منافع کی جمع آوری ہوتی ہے اور معمولی اور غیر معمولی معاملوں میں ان کے ذریعہ وثوق اور  اطمئنان حاصل کیاجاتا ہے اور سب کا دار ومدار سوداگروں اور صناعوں پر ہے کہ وہ انکی ضروریات کو فراہم  کرتے ہیں ،بازار لگاتے ہیں اور اپنی کاوشوں سے انکی ضرویات کو مہیا کر کے انہیں  خود مہیا کرنے سے آسودہ کر دیتے ہیں اسکے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ہے جنکی اعانت  اور دستگیری ضروری ہے  اللہ نے ان سب کے گزارے کی صورتیں پیدا کر رکھی ہیں اور ہر طبقے کا حاکم پر حق قائم ہے کہ وہ انکے لیئے اتنا مہیا کرئے جو انکی حالت درست کر سکے ۔

6:آپکی افواج کے بارے  وصیت "فوج کا سردار اسکو بنانا جو اپنے اللہ کا اپنے رسول ﷺ کا اور تمہارے امام کا سب سے زیادہ خیرخواہ ہو ،سب سے زیادہ پاک دامن ہو اور بردباری میں نمایاں ہو ،جلد غصہ میں نہ آجاتا ہو ،عذرمعذرت پر مطمئن ہوجاتا ہو ،کمزوروں پر رحم کھاتا ہو ،طاقتورں کے سامنے اکڑ  جاتا ہو ، نہ بدخوئی اسے جوش میں لے آتی ہو اور نہ پستی اسے بٹھا دیتی ہو پھر ایسا ہونا چاہیئے کہ تم بلند خاندان ،نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والوں اور ہمت و شجاعت اور جو دو سخاوت کے مالکوں سے اپنا ربط ضبط بڑھاؤ کیونکہ یہی لوگ بزرگوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔

پھر انکے حالات کی اس طرح دیکھ بھال کرنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرو کہ جو ان کی تقویت کاسبب ہوتواسے بڑا نہ سمجھنا اور اپنے کسی معمولی سلوک کو بھی غیر اہم نہ سمجھ لینا   (کہ اسے چھوڑ بیٹھو)کیونکہ اس حسن سلوک سے ان کی خیر خواہی کا جذبہ ابھر آئے گا اور حسن اعتماد میں اضافہ ہوگا اور اس خیال سے کہ تم نے ان کی بڑی ضرورتوں کو پورا کر دیا ہے کہیں ان کی چھوٹی ضرروتوں سے آنکھ بند نہ کر لیتا کیونکہ یہ چھوٹی قسم  کی مہربانی  کی بات بھی اپنی جگہ فائدہ بخش ہوتی ہے اور وہ بڑی ضرورتیں اپنی  جگہ اہمیت رکھتی ہیں ۔

7:قضاۃ اور منصفین کے بارے آپکی وصیت :پھر یہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیئے ایسے  شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بہتر ہو ،جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق میں نہ پڑجاتا ہو  اور نہ جھگڑنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو ،نہ حق کی پہچان کراسکے اختیار  کرنے میں طبیعت   پر بار محسوس کرتا ہو ،نہ اسکانفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو  اور نہ بغیر پوری چھان بین کیئے ہوئے سرسری طور پر کسی   معاملہ کو سمجھ  لینے پر اکتفاء کرتا ہو ،شک و شبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ہو ،اور دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو ،فریقین کی بحثنابحثی سے اکتا نہ جاتا ہو ،معاملات کی تحقیق  میں بڑے ضبط سے کام لیتا ہو اور جب حقیقت آئینہ ہوجاتی ہو تو بے ڈھرک فیصلہ کر دیتا ہو وہ ایسا ہو جسے سراینا مغرور نہ بنائے اور جنبہ داری پر آمادہ نہ کردے اگرچہ ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کا باربار جائزہ لیتے رہنا ،دل کھول کر انہیں اتنا دینا کہ جو ان کے ہر عذر کو غیر مسموع بنادے اور لوگوں کو انہیں کوئی احتیاج نہ رہے ،اپنے ہاں انہیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمہارے لوگ انہیں ضرر پہنچانے کا کوئی خیال نہ کر سکیں تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگوں کی سازش سے محفوظ رہیں اس بارے میں انتہائی  بالغ نظری سے کام لینا کیونکہ (اس سے پہلے )یہ دین بدکرداروں کے نیچے کا اسیر رہ چکا ہے جس میں نفسانی خواہشوں کی کارفرمائی تھی اور اسے دنیا طلبی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا تھا   ۔

8:اقتصادی نقطہ نظرسے آپ نے حضرت مالک اشتر ؒ کو یوں فرمایا "مال گزاری کے معاملہ میں مال گزاری اداء کرنے والوں کا مفاد پیش نظر رکھنا کیونکہ باج اور باج گزاروں کی بدولت ہی دوسروں کے حالات درست کئے جاسکتے ہیں سب اسی خراج اور خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ہیں اور خراج کی جمع آواری سے زیادہ زمین کی آبادکاری کا خیال رکھنا  کیونکہ خراج بھی تو زمین کی آبادی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور جو آباد کیئے بغیر خراج چاہتا ہے وہ  ملک کی بربادی اور بندگان خدا کی تباہی کا سامان کرتا ہے اورا سکی حکومت تھوڑے سے دنوں سے زیادہ نہیں رہ سکتی اب اگر وہ خراج کی گرانباری یا کسی آفت ناگہانی یا نہری اور بارانی علاقوں میں ذرائع آبپاشی کے ختم ہونے یا زمین کے سیلاب میں گھر جانے ،یا سیرابی نہ ہونے کے باعث اسکے تباہ ہونے کی شکایت کریں تو خراج میں اتنی  کمی کردو جس سے تمہیں انکے حالات کے سدھرنے کی توقع ہو اور انکے بوجھ کو ہلکا کرنے سے تمہیں گرانی نہ محسوس ہو ،کیونکہ انہیں زیر باری سے بچانا ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ جو تمہارے ملک کی آبادی اور تمہارے قلم و حکومت کی زیب و زینت کی صورت میں تمہیں پلٹا دیں گے اور اسکے ساتھ تم ان سے خراج تحسین اور عدل قائم  کرنے کی وجہ سے مسرت بے پایاں بھی حاصل کر سکوگے اور اپنے اس حسن سلوک کی وجہ سے کہ جس کا ذخیرہ تم نے ان کے پاس رکھو ادیا ہے  تم (آڑے وقت پر )انکی قوت کےبل بوتے پر بھروسہ کر سکوگے  اور رحم و رافت کے جلوس میں جس سیرت عادلانہ   کا تم نے انہیں خودگر بنایا ہے اسکے سبب سے تمہیں ان پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہو  تو وہ انہیں بطیب خاطر جھیل لےجائیں گے کیونکہ ملک آباد ہے تو جیسا ہوتو جیسا بوجھ اس پر لادوگے وہ اٹھالے گا  اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہوجائیں اور انکی تنگدستی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال و دولت کے سمیٹنے بوتل جاتے ہیں  اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکالگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔

9:اجتماعی میدان اور محتاج لوگوں کی رعایت کے متعلق فرمایا"اور تم اپنے اوقات کا ایک حصہ   حاجتمندوں کے لیئے معین کر دینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کے لیئے مخصوص ہوجانا اور انکے  لیئے ایک عام دربار کرنا اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے لیئے تواضع و انکساری سے کام لینا اور فوجیوں ،نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹادینا تاکہ کہنے والے بے دھڑک کہ سکیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ اس قوم میں پاکیزگی نہیں آسکتی جس میں  کمزوروں  کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا پھر یہ کہ اگر ان کے تیور بگڑیں یا صاف صاف مطلب نہ کہ سکیں تو اسے برداشت کرنا اور تنگ دلی اور نخوت کو انکے مقابلہ میں پاس نہ آنے دینا اسکی وجہ سے اللہ تم پر رحمت کے دامنوں کو پھیلادے گا اور اپنی فرماں برداری کا تمہیں ضرور اجر دے گا اور جو حسن سلوک کرنا اس طرح کہ چہرے پر شکن نہ آئے  اور نہ دینا تو اچھے طریقے سے غذا خواہی کر لینا 10:جیسا کہ آپﷺ نے دشمن کے ساتھ مصالحت اور سلامتی کے متعلق وصیت کی اس صورت میں کہ اگر اس صلح و مصالحت میں اللہ تعالی کی رضا ہو ۔

"اگر دشمن ایسی صلح کی تمہیں دعوت دے کہ جس میں اللہ کی رضامندی ہوتو اسے کبھی ٹھکرا  نہ دینا کیونکہ صلح میں تمہارے لشکر کے لیئے آرام و راحت خود تمہارے لیئے فکروں سے نجات اور شہروں کے لیئے امن کا سامان ہے لیکن صلح کے بعد دشمن سے چوکنا اور خوب ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قرب حاصل کرتا ہے تاکہ تمہاری غفلت  سے فائدہ اٹھائے لہذا   احتیاط کو ملحوظ رکھو اور اس بارے میں حسن ظن سے کام نہ لو اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو یا اسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھر عہد کی پابندی کرو ،وعدہ کا لحاظ رکھو اور اپنے قول و قرار کی حفاظت کے لیئے اپنی جان کو سپر بنادو کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفاء عہد کی ایسی کوئی  چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف راویوں کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان معاہدوں کی پابندی کی ہے اس لیئے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں انہوں نے تباہیوں کا اندازہ کیا تھا لہذا اپنے عہدو پیمان میں غداری اور قول و قرار  میں بد عہدی نہ کرنا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کرنا کیونکہ اللہ پر جرات جاہل بدبخت کے علاوہ دوسرا نہیں کر سکتا اور اللہ نے عہدو پیمان کی پابندی کو امن کا پیغام قرار دیا ہے کہ جسے اپنی رحمت سے بندوں میں عام کر دیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنا دیا ہے کہ جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لیئے وہ تیزی سے بڑھتے ہیں لہذا اس میں کوئی جعلسازی ،فریب کاری اور مکاری نہ ہونا چاہیئے اور ایسا کوئی معاہدہ کرو ہی نہیں جس میں تاویلوں کی ضرورت پڑنے کا امکاں ہو اور معاہدہ کے پختہ اور طے ہوجانے کے بعد اس کے کسی مبھم لفظ کے دوسرے معنی نکال کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو اور اس عہدوپیمان خداوندی  میں کسی دشواری کا محسوس ہونا تمہارے لیئے اس کا باعث نہ ہونا چاہیئے کہ تم اسے ناحق منسوخ کرنے کی کوشش کروکیونکہ ایسی دشواریوں  کو جھیل لے جانا کہ جن سے چھٹکارے کی اور انجام بخیر ہونے کی امید ہو اس بد عہدی کرنے سے بہتر ہے جس کے برے انجام کا تمہیں خوف اور   اسکا اندیشہ ہو کہ اللہ کے یہاں تم سے اس پر کوئی جواب دیہی ہوگی اور اس طرح تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی ہوگی ۔

11:جیسا کہ امام نے حضرت مالک اشترؒ کو اپنے اس  خط میں تاکید فرمائی کہ آپؑ نےفرمایا 

دیکھو !ناحق خونریزی سے دامن بچائے رکھنا کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کا  خاتمہ کا سبب ،ناحق خونریزی سے زیادہ کوئی شے نہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرئےگا  وہ انہی خونوں کا جو بندگان خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں لہذا ناحق خون بہاکر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کبھی نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلا کر دینے والی ہوتی ہے بلکہ اسکو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا نہ میرے سامنے کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہوجاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جائے اس لیئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہوجایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بے خود ہوکر مقتول خون بہاسکے وارثوں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔

اس اور اس گفتگو کے پیش نظر اور اس عصمت مآب سیاسی راہنمائی جو امام علی علیہ السلام کے خط میں نمایاں تھی اس اور اسلامی ریاستوں میں رائج سیاسی تشکیلات کے مابین موازنہ ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ عصر حاظر میں الہی تعین شدہ روحانی اور دینی قائد کی عدم موجودگی اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہیں ہے ایسی حکومت جو الہی شریعت اور سنت رسول اللہ ﷺ کے سہارے اپنے حکومتی ڈھانچے کو تشکیل دے یا کم ازکم اپنے دستور میں ان دونوں سے قریب ہونے کی کوشش کرئے۔لیکن اسکے باوجود وہ عام بشری  عقل کا نتیجہ ہوگی اور بہر حال شرط عصمت سے عاری ہوگی جسکا عکس اسکی سیاست اور قیادت میں نمایاں رہے گا لہذا وہ ہرگز دین اسلامی کی کامل ترجمان شمار نہیں ہوگی اور یہ ہمارے لیئے ضروری قرار دیتی ہے کہ اسکی ناکامی کا اسلام کو ذمہ دار قرارنہ دیا جائے  کیونکہ اس حکومت کا ڈھانچہ  اور برنامہ کو نافذ کرنے کا طریقہ کار اسکے مفکرین اور زعماء کی محدود عقلوں کے جتنا محدود اور ضیق ہے اور یہی اسلام سے ان غلطیوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہے جو اس حکومت نے ارتکاب کی ہیں جو اسلامی ہونے کی دعوے دار ہے کیونکہ عصمت کی شروط یہاں فاقد ہیں اور وہ غلطیاں خواہ منھجیت کی سطح پہ ہوں یا اصلا منھجیت کی ترجمان قیادت کی سطح پر ہو۔۔۔۔