- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام سلامتی کا دین۔ و ان تعفوا اقرب للتقوی۔ (اور تم معاف کرو کہ یہ تقوا کے زیادہ نزدیک ہے)
19 رجب 1443هـ

اسلامی تہذیب و ثقافت کی ابتدا غار حرا سے ہوئی۔ یہ مکہ مکرمہ کی ایک پہاڑی میں واقع ہے۔ اسلام نے اپنا آغاز ہی نرمی اور ہمدردی کی بنیاد پر کیا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں سورہ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)(سورۃ البقرہ۔  ۲۵۶)

دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے۔ اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔

اسلام میں آزادی اور عدم جبر کا یہ بنیادی طریقہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم کی سورہ الکافرون میں یوں ہوتا ہے " (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (1) لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (2) وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (3) وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ (4) وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ(6))(سورة الكافرون ـ 1 ـ6)،

پس اسلام شروع سے ہی جبر و اکراہ کا بالکل مخالف رہا ہے۔ کسی پر بھی زبردستی نہیں کی بلکہ بہت سارے ملل و نحل کے لوگ اپنی خوشی اور مرضی سے اسلام لے آئے اسی طرح سے بہت سارے آسمانی یا غیر آسمانی آئیڈیالوجی کے پیروکار وں نے بھی اپنے سابقہ اعتقادات کو خیر باد کہدیا۔ دین اسلام کی تعلیمات کو اپنی پوری آزادی اور خوشی سے قبول کیا اور پھر دائرہ اسلام میں داخل  ہوئے۔ ان کے اوپر کسی قسم کا کوئی جبر و اکراہ نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے خود ہی اسلام کو سمجھا کہ جس کی بنیاد نرمی و تحمل پر رکھی گئی ہے نیز انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمانو ں کے درمیان تسامح و تحمل کی اچھی قدریں بھی رائج ہیں۔ اس سب سے وہ متأثر ہوئے ۔یہ چیز سبب بنی کہ وہ اسلام لے آئے۔

لیکن اس حقیقت کے باوجود مغربی دنیا کے لئے یہ قابل قبول نہیں رہا بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی جانب ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ مغرب والوں کے ہاں اسلام کے واقعی تصور سے ہٹ کر اس کے متعلق ان کا اپنا ایک الگ تصور ہے۔ مغربی متفکرین کے ہاں بہت سارے غلط اور منحرف تصورات پائے جاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ان کے درمیان رائج ہوئے ہیں۔ البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی متفکرین نے یا تو اسلام کے نام پر بننے والے نام نہاد سیاسی قوانین کو ہی دیکھا ہے یا اسلام کے نام پر رائج ہونے والے غلط اور الٹے طور طریقوں کا مطالعہ کیا ہے کہ درحقیقت یہ وہ رسومات تھیں جن کو حکمرانوں اور بادشاہوں کے درباروں سے پلنے والے واعظوں اور درباروں وظیفہ لینے والوں نے اسلامی آداب و رسومات  کے نام پر لکھا ہے۔ ان چیزوں کی وجہ سے اسلام کے بارے کچھ منتشر اور غلط قسم کے تصورات ہمارے سامنے آنے لگے۔ ان چیزوں کو اس حد تک برے انداز سے بگاڑ کر عام کردیا گیا کہ اسلام کے بارے یہ سوچ پیدا ہونے لگی کہ یہ ایک ایسا دین ہے جو اپنے پھیلنے میں قتل و غارت ،انسانوں کے ہاتھ پیر کاٹنے، قیدی بنانے، مال و جائداد کے غصب کرنے کا سہارا لیتا ہے۔ جبکہ یہ ایک غلط تصور ہے البتہ اس غلط تصور کے وجود میں آنے کی  ایک اور وجہ وہ نام نہاد مسلم حکمران اور بادشاہ ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات نفس کی خاطر یا اپنی حکومت و سلطنت کےدائرے کو دور دراز تک پھیلانے کی غرض سے ایسے لشکر روانہ کئے جنہوں ظلم و دہشت گردی  کی انتہا کی۔

 پس اس طرح ہمارے سامنے دو متضاد آئیڈیالوجی آگئیں۔ ان میں سے ایک دوسری کے برخلاف ہے پہلی آئیڈیالوجی وہ ہے جو حکومتوں اور بادشاہوں کے زور و زبردستی کا نتیجہ ہے۔ دوسری اور حقیقی آئیڈیالوجی وہ ہے جو ان حکومتوں کے طور طریقوں کی مخالف تھی جس کی وجہ سے مقہور و مغلوب رہی اسے پھلنے پھولنے اور اپنی حقیقی تعلیمات کے عام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جبکہ وہ ائیدیالوجی جس کو حکومتوں کی سرپرستی رہی اور ان کے سرکاری واعظوں اور منافقوں نے لکھا اور نقل کیا یہی اہل مغرب کے لئے اسلام کے بارے غلط تصور پیش کرنے کا بہترین اور بنیادی ترین ماخذ بنا ۔ پس یہ مفاد پرست حکمرانوں کے بنائے ہوئے قوانین تھے جو اہل مغرب کے لئے اسلام کے متعلق غلط تصور پیش کرنے کا سبب بنے اس کو لے کر مغرب نے اسلام حقیقی کے اس تصویر کو چھوڑدیا جسے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفی ﷺ اور اہل بیت اطہار علیھم السلام نے نقل کیا تھا ۔کیونکہ یہی اکیلا سرچشمہ ہے جس سے اسلام کی حقیقی تصویر کشی ہوتی ہے جس میں اسلام کی عقلانیت پائی جاتی ہے اور اہل مغرب کی عقل کو بھی مطمئن کرسکتی ہے تاکہ وہ اسلام کو بالکل اسی طرح سمجھ سکیں جیسا کہ اسلام ہے۔ یعنی اسلام کو ایک آخری دین اور ایک ایسی تہذیب و تمدن کے طور پر سمجھ لیں جو دنیا کے ہر قوم و قبیلہ کو بغیر کسی فرق امتیاز کے اپنے دائرے میں داخل کرتا ہے ۔

نیز اگر اسلام کا مزید مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر ایسے نمونوں کا ذکر ہوا ہے جن کا آغاز ہی تسامح و نرمی سے ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا :

 (...وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ))(سورة البقرة ـ 273)

پس اسلام کی نگاہ میں تقوی ایمان کے نزدیک ہے اور یہی تقوی اللہ سبحانہ و تعالی پر ایمان کا جوہر ہے ۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ))(سورة الحجرات ـ 13)؛

(ترجمہ): انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے ۔

 پس سب سے بڑا پرہیزگار ہی اللہ پر سب سے زیادہ ایمان والا اور اللہ کے نزدیک سب افضل بھی وہی ہے۔ یہی تو تسامح اور نرمی ہے کہ جب یہ بنیادی جوہر ایسے درگذر کرنے کے معاملے کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے جو کہ تسامح کہلاتا ہے جو ایسی شرط کے مانند ہے جس کا ہونا نہایت ضروری ہے یعنی یہ اایک ایسی شرط کہلاتی ہے جس کی بنیاد پر مختلف انسانوں کو آپس میں ملایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے بنیادی حقوق سے دستبردار ہونا پڑے بلکہ اس تسامح اور درگزر کا عملی نمونہ بھی ہمیں رسول اکرم ﷺ اور آپ کے بر حق جانشین یعنی ائمہ طاہرین علیھم السلام کی سیرت طاہرہ سے ہی مل سکتا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیھم السلام ہی ہیں جن کی سیرت طاہرہ اس طرح کے واقعات واشارات اور نمونوں سے بھری ہوئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام تسامح و برداشت کا حامل دین ہے۔ یہاں تک کہ اسلام تو دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ بھی تسامح کا مظاہرہ کرتا ہے ۔چنانچہ خود رسول اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے وقت اپنے دشمنوں کے ساتھ جس نرمی اور معافی کا سلوک کیا تاریخ میں شاندار مثال کے طور پر مرقوم ہے۔ آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد دروازہ ان کے لئے کھلا رکھا بلکہ اس کی چابیاں ان کے پاس رہنے دیا۔ یہ ان کے حق میں اس طرح کی بڑی ہمدردی تھی کہ آپ ﷺ نے ان کو انتقام لینے کے بجائے عام معافی کا یوں اعلان فرمایا "اذھبوا انتم الطلقاء"۔ جاؤ کہ تم سب آزاد ہو ۔آپ ﷺ نے اس موقع پر اپنے ان بدترین جانی دشمنوں میں سے کسی ایک کو بھی اس کے جرم کی سزا نہیں دی۔ جبکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول خدا ﷺ اور آپ پر ایمان لائے ہوئے مسلمانوں کو اپنے گھر سے نکال دیا ان کے مال و جائیداد اور حقوق پر ڈاکہ ڈالدیا اور ان کو شعب ابیطالب میں محصور کردیا  تھا۔ جہاں پر اس قلیل سی مؤمن تعداد بھوک و پیاس اور ذلت و محرومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی کہ انہی سختیوں اور مصیبتوں کے نتیجے میں آپ ﷺ کی زوجہ حضرت خدیجہ اور چچا ابوطالب رضوان اللہ تعالی علیھما رحلت فرما گئے۔ اس کے بعد بھی انہیں مکہ والوں نے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک جاری رکھا جس کی وجہ سے کچھ مسلمانوں کو اپنا وطن اور گھر بار سب چھوڑ کر حبشہ کی جانب ہجرت کرنی پڑی ۔البتہ حبشہ کا بادشاہ جو ایک عادل اور مہربان حکمران تھا اس نے ان بیچارے مسلمانوں کو اپنے وطن میں پناہ دی اور ان کی خاطر مدارت کی۔ اہل مکہ کے ان تمام ظلم و ستم، مسلمانوں کے خون بہانے کے باوجود بھی اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ " اذھبوا انتم الطلقاء" جبکہ آپ چاہتے تو ان سے انتقام لے سکتے تھے بلکہ ان کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتے اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ لہذا اس طرح کی حقیقت اور عملی نمونوں کو اہل مغرب کے ان متفکرین کے سامنے بیان کیا جائے جن کی نظروں سے یہ اعلی نمونے اوجھل رہے ہیں اور انہوں نے اسلام پر زور وزبردستی کے دین کا الزام لگایا ہے۔ نیز وہ اصلی اسلام جو حضرت محمد ﷺ لے آئے اور جس کے پرچم کو  آپ ﷺ کےبعد اہلبیت علیھم السلام نے بلند کیا یہ تسامح و تحمل پر مبنی ہے۔ جس کی بنیاد (وان تعفوا اقرب للتقوی) کہ تم معاف کرو کہ یہ تقوی کے زیادہ نزدیک ہے ۔اور اسلام کی اصلی اور حقیقی تصویر ہے جس پر سب انسانوں کو چلنا چاہئیے خصوصا اہل مغرب کو اس اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔ یہ اسلام کی اس شکل و صورت سے بالکل جدا ہے جس کو بہت ساروں نے جعلی، ساختہ شدہ ، تحریف شدہ اور زور و زبردستی والے اسلام سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اہل مغرب نے بھی ایسے ہی مآخذ و منابع سے لیا ہے جو اسلام اور رسول خدا ﷺ  کے اوپر منفی اشارات سے بھرے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسلام کی واقعی تاریخ اس طرح کی تبدیل شدہ شکلوں سے دور اور پاک و پاکیزہ ہے جس کو گلے کاٹنے ،خون بہانے اور ناموس کی توہیں کرنے نیز اپنے حدود سے تجاوز کر کے زبردستی قبضہ جمانے اور  اللہ کی اس وسیع زمین کو جہاں تک ممکن ہو اپنے مفاد کے لئے ہڑپ کرنے کی خاطر کھینچی گئی ہیں۔