- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


کیا اسلام تمام زمانوں کا دین ہے؟
17 جمادى الاخير 1443هـ

ہر غور و فکر کرنے والا شخص اس بات کی طرف متوجہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ایک فکری اور ثقافتی تبدیلی آرہی ہے۔ اسلامی معاشروں میں تقافتی یلغار ہے جو اسلامی معاشرے کے تشخص پر اثر انداز ہو رہی ہے اور اس کی بنیادوں تک پہنچنا چاہتی ہے۔ بہت سے ایسے افکار آرہے ہیں جو معاشرے کو اسلام اور دین سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ دینی افکار کی جگہ یہ نئے افکار کو لانا چاہتے ہیں اور اس ثقافتی یلغار کا نتیجہ بھی یہی ہے۔ امت کے کچھ لوگ جو عقائد و نظریات میں کمزور ہیں وہ ان نئے افکار سے متاثر ہو کر ان کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ جب بہت سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور معاشرے کے اندر اور باہر سے سوال جنم لیں رہے ہیں تو سوشیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے سولات کو سننا چاہیے۔ اہم سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا اسلام کے احکامات میں موجودہ جدید زمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہے یا یہ صلاحیت نہیں ہے؟ ہمارا زمانہ ٹیکنالوجی اور ترقی اور وہ بھی تیز رفتار ترقی کا زمانہ ہے اور انسان خلا میں پہنچ چکا ہے۔اس زمانے میں وسائل بے تحاشہ ہو چکے ہیں اور انسان فضا میں طیاروں کے ذریعے اڑ رہا ہے علمی دریافتیں بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ جدید آلات آچکے ہیں اور نت نئی ٹیکنالوجیز سامنے ہیں اس کے ساتھ ساتھ افکار اور نظریات میں بھی اختلاف آچکا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں اس سب نے ایک اہم اور قیمتی سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا دین اسلام کے احکام اس تبدیلی کی زد میں واقع زمانے کے لیے بھی ہیں؟ فرض یہ ہے کہ اسلامی احکامات تو ناقابل تغیر ہیں اور زمانہ تبدیل ہو رہا ہے، یہ تبدیل ہوتا زمانہ ایسی قوانین کا تقاضا کرتا ہے جو جدید ہوں اور زمانے کے ساتھ سازگار بھی ہوں یعنی ثابت یا تبدیل ہوتے قوانین جو بھی ہوں زمانے کے ساتھ سازگارہونے چاہیں۔

اس سوال پر بحث کرنے سے پہلے کہ ان نظریات کو قبول کرنے سے معاشرے میں ایک تباہی آئے گی اور یہ خیالات عالمی سطح پر فروغ پا رہے ہیں ان نظریات کے نتیجے میں معاشروں میں الحاد، ہم جنس پرستی کا فروغ اور خاندان کا تصور ختم ہو رہا ہے۔یہ نئے افکار و نظریات جو زمانے میں ہونے والی علمی اور فنی ترقی کا نتیجہ ہیں  ایسا سمجھ لیا گیا ہے  ہے کہ دین ان کے مخالف ہے اور دین کسی بھی صورت میں ان جدید افکار کے ساتھ سازگار نہیں ہو سکتا۔

ہم اس فکر کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کے اس غلط استدلال کو بھی نہیں مانتے کہ مسلمانوں کا عقیدہ اور ان کی ثقافت جدید دور کے تقاضوں کو قبول نہیں کرتی ہے ۔اس ساری فکر کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ لوگ الہی قوانین کو بھی انسان کے اپنے تجربات اور ضروریات کی روشنی میں قائم قوانین کی طرح سمجھتے ہیں جو انہوں نے اپنی کمزور عقلوں سے بنائے ہیں۔ انسان کے بنائے قوانین کو ہر زمانے میں تبدیل کرنے کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ ان کے بنانے والا انسان ہوتا ہے اور اس کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں اور اس کے غلط ہونے کا امکان بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے زمانہ گزرتا ہے انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں غلطیاں واضح ہوتی جاتی ہیں۔ اس لیے کوئی اورانسان آتا ہے اور وہ اس سابق قانون کی جگہ نیا قانون لے کر آجاتا ہے اور یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رہتا ہے۔ ہاں انسان کے بنائے قوانین میں بہت سے مسائل موجود ہوتے ہیں اور انسان ان قوانین کو معاشروں کے تجربات اور اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں بناتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ ایک تجربے سے دوسرے تجربے کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔اس کے نیتجے میں عالمی جنگیں ہوتی ہیں، اجتماعی معاشرتی،اقتصادی اور سیاسی فیصلے کیے جاتے ہیں۔اس کے مقابل ہم جب اسلامی قوانین کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالی انسان کا خالق ہے اور انسان کے نفع اور نقصان کو جانتا ہے وہ ایسا صاحب قدرت ہے جس کی قدرت و طاقت کی کوئی حد نہیں ہے اور زمانوں اور مکانوں سے بلند ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اللہ تعالی نے شریعت اسلامی کو اپنی آخری شریعت قرار دیا ہے اور تمام انسانوں کو اس کی تبلیغ کا حکم دیا ہے تاکہ وہ قیامت کے دن تک اس پر عمل کریں یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ شریعت قیامت تک آنے والے تمام زمانوں اور تمام انسانوں کے لیے سازگار ہو۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ اسلامی احکام تمام زمانوں کے لیے سازگار ہیں ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ زمانے کے تبدیل ہونے سے ہر چیز کا تبدیل ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت سے امور ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور ہم اپنی عقل کے ذریعے ان امور سے آگاہ ہو سکتے ہیں جو زمانے کے تبدیل ہونے سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ایک جیسے رہتے ہیں ہم  اپنی عقل کے ذریعے یہ جانتے ہیں عدل اچھی چیز ہے اور یہ قابل تعریف بھی ہے زمانہ قدیم سے تمام انسان عدل کے اچھا ہونے کاکہتے آئے ہیں در حالانکہ ان کا زمانہ اور ان کے مکان مختلف تھے اور یہ آج تک ایسے ہی ہے کہ عدل اچھا اور قابل تعریف ہے۔اسی طرح ظلم برا ہے اور قابل مذمت ہے اب زمانہ جتنا مرضی تبدیل ہو جائے یہ ایسا ہی رہے گا ،عدل کا ہر زمانے میں اچھا ہونا اور ظلم کا ہر زمانے میں برا ہونا ایسی بات ہے جس کا کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح دین اسلام میں کچھ امور ناقابل تغیر ہیں جو زمانے کے تبدیل ہونے سے نہیں بدلتے جیسے اللہ کے وجود اور اس کی صفات کا عقیدہ، نبوت اور اس کی صفات کا عقیدہ،عقیدہ امامت،معاد کا عقیدہ اور اسی طرح اخلاقی امور بھی تبدیل نہیں ہوتے جیسے سچ کا اچھا ہونا، چھوٹ کا برا ہونا اور خیانت کا نا پسندیدہ ہونا۔اسی طرح عبادات بھی تبدیل نہیں ہوتیں جیسے نماز ،حج ،زکوۃ اور روزہ کی صورت میں شروع سے جیسے تھی آج بھی ویسے ہی ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح رہے گا۔ یہ احکام تمام زمانوں میں  ثابت رہتے ہیں زمانہ چاہے جتنا مرضی تبدیل ہو جائے ۔جب اللہ تعالی نے تمام زمانے کے لیے کسی چیز کو ضروری قرار دیا جیسے نماز،حج اور خمس تو اسے تمام زمانوں کے لیے فرض کیا۔جو ان کے ضروری ہونے کا انکار کرتا ہے وہ اللہ کی طاقت اور اس کی حکمت کا انکار کرتا ہے۔اللہ نے جب کسی چیز کو ممنوع قرار دیا جیسے شراب ،زنا اور جوے کو ممنوع قرار دیا تو اس  کا مطلب یہ ہے کہ جتنا مرضی زمانہ گزر جائے اس میں موجود نقصان ختم نہیں ہو گا۔

جہاں تک ان معاملات کی بات ہے جو زمانے کے تبدیل ہونے اور وقت کےبدلنے سے مختلف ہو جاتے ہیں جیسے ہمارے لباس اور پہناوے،عادتیں،عرف، رائج رویے، کچھ ایسے معاملات جو انسان بدلتے زمانے کے ساتھ اپنے علاقے کی ترقی کے لیے اختیار کرتا ہے۔اللہ تعالی نے ان معاملات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ قاعدے اور اصول بتا دیے ہیں جو بہت عام ہیں کہ ان کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں گے۔ جب بھی کوئی نئی چیز آئے گی تو ہم ان قواعد کی روشنی میں دیکھیں گے اور اس سے ہمیں حکم شرعی کا پتہ چل جائے گا کہ اسلام اس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔یہی طریقہ فقہا کرام او رمراجع عظام احکام کے استنباط کےلیے کرتے ہیں۔ شریعت مقدسہ اسلام میں ہر چیز کا حکم موجود ہے ایسی کوئی چیز نہیں جس کے حکم کو اسلام میں تلاش نہ کیا جا سکتا ہوبطور مثال اگر کیمسٹری والے کوئی نیا مادہ دریافت کرلیتے ہیں اور ہم اس کا حکم شرعی معلوم کرنا چاہیں تو اس کو معلوم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے چند قوانین بنائے ہیں جیسے ہر وہ چیز جو انسانیت کے لیے نقصان کا باعث بنے وہ حرام ہے،اسی طرح ہر وہ چیز جو انسانی عقل کے ختم ہو جانے کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے،جو نشہ میں مبتلا کردے وہ بھی حرام ہے جو بھی دس ناپاک چیزوں کے زمرے میں آئے وہ بھی حرام ہے اور اس کے علاوہ سب کی سب چیزیں حلال ہیں۔ ہم اس نئے دریافت ہونے والے مادہ کو دیکھیں گے کیا اس مندرجہ بالا عناوین میں سے کوئی صدق آتا ہے؟جب یہ نقصان کا باعث ہو،یا عقل کو ختم کرنے والا ہو یا نجاسات میں سے ہو تو ہمارا حکم حرمت کا ہوگا کہ یہ چیز شریعت میں حرام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ چیز حلال ہو گی اور اس سے فائدہ اٹھانا درست ہو گا۔

ایک دوسری مثال کولیتے ہیں اعتراض کرنے والے شک میں مبتلا لوگ اکثر یہ بات کرتے ہیں کہ اسلام بناو سنگھار اور آرائش و زیبائش کے خلاف ہے اور انسانوں کو اسی طرح رہنے کا پابند کرتا ہے جیسے انسان زمانہ قدیم میں تھے۔ یہ اعتراض بے جا ہے کیونکہ اسلام تو صفائی اور زیبائش کی تحسین کرتا ہے لیکن اس کےلیے کچھ معقول شرائط لگاتا ہے کہ جو بھی پہنیں اس میں یہ شرائط ہونی چاہیں کہ وہ شہوت پر ابھارنے والا نہ ہو اور انسان ننگا نہ ہو رہا ہو اور یہ لباس انسان کی ذلت کا باعث نہ بنے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ اسلام کسی خاص لباس  کو معین نہیں کرتا کہ آپ نے اس ڈیزائن کا لباس ہی پہننا ہے۔انسان اس میں آزاد  ہے کہ وہ جس طرح کا لباس مرضی پہننے  بس  یہ کہ وہ مذکورہ شرائط کے خلاف نہ ہو۔

اسلام کا یہی رویہ میڈیکل اور دیگر سائنسز میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ہے اسلام فکری تنوع کو قبول کرتا ہے اور فقہاء نے اپنی فقہی تحقیقات میں ان مباحث کو شامل کیا ہے۔

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تعلیمات انسان کو ترقی اور آگے بڑھنے سے نہیں روکتیں ،اسی طرح یہ تعلیمات انسان کو اس کی فطری خواہشات سے لطف اندوز ہونے سے بھی منع نہیں کرتیں کہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہو۔اسلام ہر چیز کے لیے کچھ شرائط رکھتا ہے کہ کہیں انسان سرکشی پر نہ اتر آئے، یہ سرکشی اور اس کی نافرمانی اسے نقصان نہ پہنچائے۔ترقی اور پیشرفت ہمیشہ مثبت ہونی چاہیے منفی نہیں ہونی چاہیے کچھ معاشرے جو خود کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں ان میں ایسا ہی ہوا ہے کہ وہاں انسان کو نقصان پہنچانے والی اور انحطاط میں لے جانے والی معکوس ترقی بہت زیادہ ہوئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نفسیاتی مسائل بڑھ گئے ہیں،معاشرے برائیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان نام نہاد اقوام نے کمزور اقوام کے ساتھ جو وحشی رویہ اختیار کیا وہ الگ بحث ہے۔یہ سب اس لیے ہوا  یہ اقوام  الہی تعلیمات سے دور تھیں وہ تعلیمات جو اللہ تعالی نے زندگی کو منظم کرنے کے لیے نازل کی تھیں۔

اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات گزرتے زمانے کے ساتھ غیر متعلق نہیں ہوتیں بلکہ ہر زمانے کی زندگی کے ساتھ سازگار ہو جاتی ہیں،اس طرح کہ جیسے جیسے انسانی علوم ترقی کرتے ہیں اسلام کی سچائی میں اسی طرح اضافہ ہوتا جاتا ہے کہ اسلام انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے اور یہی اس کے لیے مناسب ہے۔اسی لیے ہم دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے علماء اور فلاسفرز کے بہت سے اقوال پاتے ہیں جو اسلامی قوانین کی عظمت ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور ائمہ ؑ کے فضائل کو بیان کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے بڑی دقت سے اسلام کے قوانین کا مشاہدہ کیا ہے اور اسلامی قوانین کی وسعت کو دیکھ چکے ہیں۔اسی طرح موجودہ زمانے میں کچھ قوتوں کی طرف سے اسلام اور اس چیز کے خلاف جس کے ساتھ اسلامی لگا ہے ایک دشمنی کی مہم دیکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان انسانیت دشمن لوگوں کے منفی افکار کے راستے میں اسلام ہی بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ بات ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور ان قوتوں کی طرف سے منفی اعتراضات پر کان نہ دھریں اور اسلام کا روشن راستہ اختیار کریں تاکہ انحراف سے بچ سکیں وہ انحراف جو انسان کی فطرت سلیمہ کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں بھلائی اور خیر کے امور میں یقین کے ساتھ شامل ہونا چاہیے یہ بھلائی اور خیر کا راستہ ہمارا دین حنیف ہے۔دین حنیف کے مقابل موجود افکار وحشت ناک ہیں جن کا ظاہر خوبصورت اور باطن  قبیح ہے۔