قرآن مجید نے اپنے آپ کو وجودیت کی تمام خوبیوں کو سمجھنے، ان کی اتباع کرنے اور زندگی کی مختلف تبدیلیوں کا جائزہ لینے سے روک کر نہیں رکھا اور اسی کے ضمن میں وہ طبعی طور پر معاشرتی سنتوں کے آغاز اور ان کی نابودی تک ان سنتوں اور ان کے منحنی زمانی خطوط کی پیروی سے بھی دور نہیں ہوا۔
قرآن کریم نے ان کج راستوں اور منحنی خطوط کے بارے میں ایک دانشمندانہ اور علمی رویہ اپنایا ہے۔ جس سے قرآن کریم میں تدبر کرنے والے فرد کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ کئی ایسے مردم شناسی، جمعیت شناسی اور اقتصاد کے اسباب موجود ہیں جو کسی بھی قوم کی پیدائش، اس کے استحکام، اس کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت و شان و شوکت اور پھر اس کے زوال میں شریک ہوتے ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید کی پیروی کرنے والے شخص کو ایسے اسباب و عوامل کا بھی پتا چلتا ہے جو قوموں کو ایک طویل عرصے تک قائم رکھ سکتے ہیں یا انہیں مختصر عرصے میں کمزور کر سکتے ہیں اور اس کے بعد اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی بیماریاں اور امراض ہیں جو کسی بھی قوم کو اس کے بچپن، نوجوانی، جوانی حتی کہ بڑھاپے میں بھی عارض ہو سکتے ہیں اور نتیجتاً اس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا باعث بن جاتے ہیں۔
گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ اس امت کے لیے بھی کچھ اسباب و عوامل ہیں: کچھ اس کے وجود کے لیے اور کچھ اس کی بقاء کے لیے ضروری ہیں جبکہ کچھ اس کی شکست اور فنا میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
چونکہ ہمارا مضمون اقوام عالم کے تہذیبی زوال کا جائزہ لینے تک محدود ہے لہٰذا ہم اقوام کے زوال اور ان کے خاتمے کی وجوہات بیان کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے۔ ایک ہی امت کے افراد کے مابین معاشرتی ظلم سے لے کر دوسری امتوں کے ساتھ ظلم تک اور پھر ان کے مابین تفریق اور تضاد کی دلدل ان کی مادی عیش و عشرت سے گزرتے ہوئے اور آسمانی اور معاشرتی اقدار کے انکار کے ساتھ خاتمہ تک تمام وجوہات کا جائزہ لیں گے۔
ایک امت کے افراد کے درمیان معاشرتی ناانصافی کی تباہ کاری اس کے معاشرتی عدالتی نظام کو مسمار کر دینے میں پوشیدہ ہے۔ اور اس کے منفی اثرات ہمیں ایک ہی خاندان کے افراد کے مابین بھی نظر آئیں گے۔ اس نا انصافی کی ترجمانی اس حقیقت سے کی جا سکتی ہے کہ اس امت کا ہر فرد اپنے شخصی مفادات کے لیے ہمیشہ حد سے زیادہ متعصبانہ رویہ اختیار کرے گا چاہے اس میں دوسروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو: وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ * إِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوا لَا تَخَفْ خَصْمَانِ بَغَى بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَينَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ الصِّرَاطِ * إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِي نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ* (ص: ۲۱ تا 23) [اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے؟ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے، ہم نزاع کے دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجیے۔ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔]
شاید سماجی سطح پر حقیقت سے دور تقسیم اور نسل پرستی کی شکل میں اس ناانصافی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے: يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يكُونُوا خَيرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يكُنَّ خَيرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ (الحجرات: 11) [اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کیا کرو، ایمان لانے کے بعد برا نام لینا نامناسب ہے اور جو لوگ باز نہیں آتے پس وہی لوگ ظالم ہیں۔] وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَينَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَينَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ (الحجرات: 9) [اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔]
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی وصیت فرمائی ہے: ’’آگاہ رہو، اللہ کی قسم، تمہیں نیکی کا حکم دینا چاہیے، برائی سے منع کرنا چاہیے، ۔ ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے، اسے حق کی طرف پلٹانا چاہیے اور حق پر اسے قائم رکھنا چاہیے ورنہ اللہ تمہارے دلوں کو آپس میں الجھا دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر اس نے لعنت کی ہے۔‘‘
اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اس بات کی تاکید کی ہے: ’’ظلم کے قیام سے بڑھ کر کوئی چیز خدا کی نعمت کو تبدیلی اور اس کی ناراضگی کی جلدی کی طرف زیادہ دعوت دینے والی نہیں ہے کیونکہ خدا مظلوموں کی آواز سنتا ہے اور ظالموں کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے۔‘‘
خلاصہ گفتگو یہ ہوا کہ معاشرتی ناانصافی کے نتیجے میں خراب تعلقات اور کمزور بنیادوں پر استوار ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے بلکہ وہ باہر سے آنے والے کسی بھی دشمن کے لیے چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو تر نوالہ ثابت ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ امت کی ہلاکت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جیسا کہ امام علیؑ نے فرمایا ہے: ’’ظلم سے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں، نعمتیں سلب ہو جاتی ہیں اور امتیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔‘‘ بعض اوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سماجی ناانصافی افراد کے قابو سے باہر ہو جائے خصوصاً اس وقت جب معاشرے ویسا ہی رویہ اختیار کر لیں جیسا کہ حکمران ان کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ بھوک کی سیاست جو طاقتور ممالک اور قومیں کمزور اقوام کے خلاف استعمال کرتی ہیں سے لے کر نفسیاتی جنگ، نسل کشی کی جنگوں، مذہبی اور فرقہ وارانہ امتیازی سلوک اور اس کے علاوہ ہر وہ چیز جو کمزور ممالک کے خلاف طاقتور ممالک کی امتیازی خصوصیت ہے۔
کسی بھی امت کے تہذیبی زوال کا دوسرا سبب اس کے افراد کا آپس میں نا حق دشمنی اور تقسیم کی دلدل میں دھنس جانا ہے۔ نتیجتاً تقسیم ایک ایسا تباہ کن تیشہ ہے جو امت کے سر پر پڑتاہے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔ تقسیم کی اصل مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی امت چھوٹی چھوٹی اور ایک دوسرے کی حریف اکائیوں میں بٹ جاتی ہے جن میں سے طاقتور اکائی کمزور اکائی کو ختم کر دیتی ہے اور کمزور اکائی اپنی صلاحیتوں سے ہاتھ دھو کر فنا ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم نے اس پہلو سے قطعاً صرف نظر نہیں کیا بلکہ وحدت کلمہ، طبقاتی وحدت اور معاشرتی یکجہتی پر ابھارا ہے۔ اور معاشرتی دشمنیوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (انفال: 46) [اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔] اسی طرح قرآن کریم نے خصوصاً معاشرتی کنٹرول کے لیے مضبوط راستے کی وضاحت کے بعد تفرقہ اور تفرقہ کی طرف لے جانے والے اختلاف سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَينَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ (آل عمران: 105) [اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔] اگرچہ ایک پائیدار نظریہ کی بنیادیں اس چیز پر ہیں کہ اختلاف دشمنی اور اس کے نتیجے میں ہلاکت خیز فرقہ بندی کا نقطہ آغاز ہے جیسا کہ پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے اختلاف کیا وہ ہلاک ہو گئے۔‘‘ اسی چیز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ امام علی علیہ السلام نے بھی فراموش نہیں کیا اور جس وقت وہ اپنی حکومت کا انتظام و انصرام کر رہے تھے تو فرمایا:
’’اور تم کو لازم ہے کہ گزشتہ زمانے کے اہل ایمان کے وقائع و حالات میں غور و فکر کرو۔۔۔ غور کرو کہ جب ان کی جمعیتیں یکجا، خیالات یکسو اور دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے تو اس وقت ان کا عالم کیا تھا؟ کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے؟ اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یکجہتی درہم و برہم ہو گئی، ان کی باتوں میں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے، وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں۔ اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت بن کر رہ گئیں۔‘‘
اسی طرح امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’اسماعیل علیہ السلام کی اولاد، اسحاق علیہ السلام کے فرزندوں اور یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کرو۔ حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں۔ ان کے منتشر و پراگندہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں فکر و تامل کرو کہ جب شاہان عجم اور سلاطین روم ان پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کےدریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے خاردار جھاڑیوں، ہواؤں کی بے روگ گزرگاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر انہیں فقیر و نادار اور زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا باشندہ بنا کر چھوڑتے تھے۔ ان کے گھر بار دنیا جہان سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیوں سے تباہ حال تھے۔‘‘
اقوام اور ان کے معاشروں کے پیچھے رہ جانے کی تیسری وجہ ان کے حکمرانوں کی عیش و عشرت میں اعتدال کا فقدان ہے۔ جس کے نتیجے میں فقراء کی ذمہ داری ان کے خاندان کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔ خصوصاً عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ اپنے کفر اور کفرانِ نعمت کی وجہ سے الٰہی مصائب کا مرکز قرار پاتے ہیں: وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا۔ (الاسراء: 16)۔ [اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔]
اور خصوصاً جب یہ معاشرے شکر کے ذریعے الٰہی نعمات کی حفاظت نہیں کرتے: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔ (النحل: 112) [اور اللہ ایسی بستیوں کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا،پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔]
معاشرتی عیش و عشرت کا نتیجہ سرکشی اور کفرانِ نعمت کی شکل میں سامنے آتا ہے جیسا کہ انکار کرنے والوں کے ساتھ حتماً ایسا ہی ہوتاہے: وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ۔ (القصص: 58) [اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تووارث تھے۔]
عیش پسند لوگ اپنے فسق کے بعد جس عذاب الٰہی کا شکار ہوتے ہیں اسے بھی یاد رکھنا چاہیے: وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا۔ (الإسراء: 16)۔ [اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔] أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ * إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ * الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ * وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ * وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ * الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ * فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ * فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ * إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ * فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ * وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ* (الفجر : 6 تا 16) [کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟ ستونوں والے ارم کے ساتھ۔ جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی۔ اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ۔ ان لوگوں نے ملکوںمیں سرکشی کی۔ اور ان میں کثرت سے فساد پھیلایا۔ پس آپ کے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔ یقینا آپ کارب تاک میں ہے۔ مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتاہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے توکہتاہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔ اور جب اسے آزما لیتاہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔]
یہ تمام الٰہی آفات سرکشی اور فساد فی الارض جو عیش پسند لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں، کا لازمی نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اس بات پر زور دیا ہے: ’’مجھے تمہارے بارے میں فقر کا اتنا خوف نہیں بلکہ زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ دنیا تمہارے لیے اتنی کشادہ اور وسیع کر دی جائے جتنی تم سے پہلے لوگوں کے لیے کی گئی تھی اور پھر تم ان کی طرح رقابت اور دشمنی میں مبتلا ہو کر انہیں کی ہلاک ہو جاؤ۔‘‘
امتوں کے زوال تہذیبوں کے تباہی اور معاشروں کی بربادی کا ایک اور سبب ان کا الٰہی اور سماجی اقدار کا انکار کرنا ہے، کیونکہ یہ اقدار خدا کی طرف سے تکوینی اور تشریعی سنتیں ہیں جو انسان کا اپنے خالق اور اس کی مخلوق کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتی ہیں، خصوصاً ان قوانین کا انکار جنہیں آسمانی صحیفوں نے اللہ کے رسولوں اور لوگوں تک اس کا پیغام پہنچانے والوں کے ذریعے محفوظ کیا ہے، جن میں خدا کی عبادت اور بغیر کسی شرک کے اس پر ایمان کی اقدار بھی شامل ہیں: وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ۔ (القصص: 59) [اور آپ کا رب ان بستیوں کو تباہ کرنے والا نہ تھا جب تک ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو تباہ کرنے والے نہ تھے مگر یہ کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوئے۔]
اسی بات کو پیغمبر اکرمﷺ نے اپنی حدیث مبارک میں بیان فرمایا ہے: ’’جب خداوند کریم کسی امت پر ناراض ہو اور عذاب نہ بھیجے تو ان کے بازاروں میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، عمریں کم ہو جاتی ہیں، تاجروں کو منافع نہیں ہوتا، ان کی فصلوں سے برکت اٹھ جاتی ہے، نہروں میں پانی کم ہو جاتا ہے، خدا ان سے بارشیں روک لیتا ہے اور بدترین لوگوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔‘‘