- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عورت؛ اسلام کی نگاہ میں: کمالِ سکون،عالمِ آرام
20 جمادى الاول 1441هـ

ایک خاندان کی تعمیر کے لیے نفسیاتی بنیاد تشکیل دینے میں عورت کا کردار مرد کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ قرآن مجید نے اسے یوں تعبیر کیا ہے: ’’ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيسْكُنَ إِلَيهَا۔ (اعراف: 189) [اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے۔] پس شوہر وہ ہوتا ہے جو بیوی کے پاس راحت اور سکون محسوس کرتا ہے اور اس کے ساتھ آباد ہوتا ہے۔ پس بیوی اس کا مرکز و محور، اس کی حفاظت کا ہالہ، محبت اور عشق ہے۔

خداوند کریم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر سکون کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعے ہم وہ مفہوم اخذ کر سکتے ہیں جو ایک زوجہ اپنے شوہر کو فراہم کرتی ہے: وَمِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيهَا وَجَعَلَ بَينَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يتَفَكَّرُونَ(الروم:21) [اور یہ اس کی نشانیوں میںسے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔] وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيسْكُنَ إِلَيهَا۔ (اعراف: 189) [اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے۔]

ایک معاشرے میں رہتے ہوئے ہم سکون کا معنی اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے شوہر اور بیوی کے درمیان پائے جانے والے رابطے کو سکون، محبت اور رحمت کا تعلق قرار دیا ہے۔  اور جس وقت قرآن مجید میں کئی مقامات پر لفظ ’’سکن‘‘ پڑھتے ہیں تو ہمیں اس کی خاندانی اور سماجی دلالت معلوم ہوتی ہے: وَجَعَلَ اللَّيلَ سَكَنًا۔ (انعام: 96) [اور اس نے رات کو باعث سکون بنایا۔] یعنی لوگ اس میں راحت اور آرام سے ٹھہرتے ہوتے ہیں۔

ارشاد خداوندی ہے: وَصَلِّ عَلَيهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ۔ (التوبۃ: 103) [اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقیناً آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے] یعنی آپ کی دعاؤں سے وہ سکون پاتے ہیں اور ان سے ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہ سکون جو متانت، سنجیدگی اور عظمت کے ساتھ ہو نہ کہ وہ سکون جو حرکت کے فاقد ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ۔ (الفتح: 4) [وہی اللہ ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکون نازل کیا۔] یعنی اس نے ثبات اور اطمینان پیدا کیا۔

ماہرینِ لغت نے ’’سکن‘‘ کے یہ معانی کیے ہیں:

سکن الریح: ہوا کا رک جانا۔

سکن النفس بعد الاضطراب: چین آنا۔

سکن النفس الیہ: کسی چیز سے مانوس ہونا اور اس سے راحت محسوس کرنا۔

السکن: رہائش گاہ، ہر وہ چیز جس سے سکون اور انسیت حاصل ہو، بیوی، آگ؛ یعنی انسان آگ کی طرف مانوس ہوتا ہے کیونکہ یہ اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے، گرمی دیتی ہے اور کھانے کو پکا دیتی ہے، رحمت، برکت اور قوت۔

اور سکینہ سے مراد: اطمینان، سکون، سنجیدگی اور وقار۔

اسی طرح سکن سے ہم وہ مفہوم سمجھتے ہیں جو ایک بیوی اپنے شوہر اور اپنے گھر والوں کو مہیا کرتی ہے اور وہ ہے راحت، سکون، انسیت، رحمت، برکت اور وقار۔

اس سے ہمیں یہ راز سمجھ میں آ جاتا ہے جس کی وجہ سے قرآن مجید نے ایسے لفظ کو چنا جو جامع ہے اور مختلف معانی رکھتا ہے۔

عورت کے مقام و مرتبے کے قرآنی اسباب و محرکات

اسلام زندگی کے لیے ایک راستہ بن کر آیا ہے جو عقیدہ، فکر، ثقافت، رویوں اور عبادت کو شامل ہے۔ وہ بنیادی قوانین جن کا مطالعہ کرنے اور ان پر بحث اور ان کی علمی تحلیل کا اہتمام اسلام نے کیا ہے، ان میں سے ایک معاشرے اور معاشرتی زندگی کی، عقائد، تشکیلات اور تعلقات کے حوالے سے نشوونما اور ان کے اسباب و محرکات کی شناخت کا مسئلہ ہے۔ قرآن مجید نے مختلف اسباب  و محرکات کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

پہلی بنیاد

جیسا کہ آیات نے واضح کیا ہے کہ معاشرتی عمارت کا بنیادی عنصر زوجیت کا عام فطری قانون ہے۔ جو عورت اور مرد کے فطری ڈھانچے میں جلوہ گر ہوتا ہے پس یہ دونوں معاشرتی عمارت کے دو بنیادی عنصر ہیں اور عضوی اور نفسیاتی دونوں جہات سے حیاتیاتی ڈھانچے کی بنیادی ہیں: وَمِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيهَا وَجَعَلَ بَينَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يتَفَكَّرُونَ۔ (الروم: 21) [اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں۔]

دوسری بنیاد

جیسا کہ قرآنی آیات اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دوسرا محرک جو انسان کو معاشرے کی تشکیل پر ابھارتا ہے وہ بنی نوع انسان کے مابین تعارف کا عنصر ہے جو معاشرے کی محبت کے ایسے احساس کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے جسے فلاسفہ نے یوں تعبیر کیا ہے: الانسان مدنی بالطبع۔ یعنی انسان فطری طور پر معاشرہ پسند ہے: يا أَيهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات: 13) [اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقیناً وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔]

تیسری بنیاد

معاشرتی عمارت کے تیسرے جس اہم سبب کی طرف آیات اشارہ کرتی ہیں وہ مختلف مادی مفادات کا تبادل ہے۔ خداوند کریم چاہتا ہے کہ انسان اپنی فکری، جسمانی اور نفسیاتی صلاحیتوں کی بنا پر کمال کی طرف سفر کرے۔ اس بنا پر سماجی ذمہ داری پیدا ہوتی ہے جس طرح بدن کے اعضاء اس کے اعمال و وظائف کی ادائیگی میں باہم مل کر کام کرتے ہیں اسی طرح معاشرے کے اندر باہمی حیات کے لیے مشاغل کی نشوونما کے اصول کی تفسیر کی گئی ہے: أَهُمْ يقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَينَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيرٌ مِمَّا يجْمَعُونَ۔ (الزخرف: 32) [کیا آپ کے پروردگار کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ جب کہ دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے اور آپ کے پروردگار کی رحمت اس چیز سے بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔]

اسی طرح قرآن مجید معاشرے کی نشوونما کے انسانی اور مادی محرکات کی وضاحت کرتا ہے۔ ان تمام عناصر میں عورت کا کردار واضح اور بنیادی شکل میں کھل کر سامنے آتا ہے چاہے مادی پہلو ہو چاہے روحانی و نفسیاتی اور چاہے سماجی زندگی میں وظیفے کی ادائیگی۔ پس عورت معاشرے کا بڑا اور اہم جزو ہے۔

عملی انضمام کے نظریے جس کی قرآن نے ابھی ابھی وضاحت کی ہے، کی بنیاد پر اسلام نے معاشرے کی تعمیر میں اسلامی اہداف و اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے عورت کے کردار کا اسی طرح اہتمام کیا ہے جیسا کہ مرد کے کردار کا انتظام کیا ہے۔ پس عورت ثانوی عنصر اور اضافی وجود نہیں ہے۔

اسلام ایک بافضیلت معاشرے کو وجود میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کو دو الگ الگ اور متصادم جنسوں کے طور پر نہیں دیکھتا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے بلکہ وہ ان دونوں کو ایک متحد بنیاد کی نطڑ سے دیکھتا ہے جو ایمان کی اقدار کے ساتھ محبت پر قائم ہوتی ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ يأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَينْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔ (التوبہ: 71) [اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔]

اس کے ذریعے قرآن مجید معاشرے کی اصلاح کو امانت کے طور پر مومنین اور مومنات کے ہاتھ سپرد کرتا ہے اور دونوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ نہ ہی مرد کو کوئی چھوٹ دیتا ہے اور نہ ہی عورت کو کوئی استثناء۔ اس ذمہ داری میں معاشرے کے تمام انتظامی سیاسی، اقتصادی اور روحانی اجزا شامل ہیں۔ اسلام سیاسی اصولوں اور اخلاق کو خراب کرنے والے والے سماجی مسائل میں عورت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عمومی ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں سمجھتا۔