درجہ ذیل چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے :
(1) مال غنیمت: اگرمسلمان امام علیہ السلام کے حکم سے کفارسے جنگ کریں اورجو چیزیں جنگ میں ان کے ہاتھ لگیں انہیں ’’غنیمت‘‘ کہاجاتاہے اورجومال، خاص امام علیہ السلام کاحق ہے اسے علیٰحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ پرخمس اداکیاجائے۔مال غنیمت پرخمس ثابت ہونے میں اشیائے منقولہ اورغیر منقولہ میں کوئی فرق نہیں ۔اگرمسلمان کافروں سے امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل ہوتوجوغنیمت حاصل ہووہ امام علیہ السلام کی ملکیت ہے اورجنگ کرنے والوں کااس میں کوئی حق نہیں ۔اگراس کامالک محترم المال( یعنی مسلمان یاذمی کافر یا جس سے معاہدہ ہوا ہو)تو اس پرغنیمت کے احکام جاری نہیں ہوں گے اسی شخص کو واپس کرنا واجب ہے۔
(2)معدنیات: اس میں زمین سے نکلنے والی تمام معدنیات شامل ہیں، جیسے سونے، چاندی، سیسے، تانبے، لوہے، (جیسی دھاتوں کی کانیں ) نیز پیٹرولیم، کوئلے، فیروزے، عقیق، پھٹکری یانمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمرے میں آتی ہیں۔ مرجع اعلی آیۃ اللہ سید علی سیستانی کے نزدیک ،احتیاط لازم کی بنا پر جپسم،چونا،چکنی مٹی اورسرخ مٹی پرمعدنی چیزوں کے حکم کااطلاق ہوتاہے۔ لہٰذااگریہ چیزیں حدنصاب تک پہنچ جائیں توسال بھر کے اخراجات نکالنے سے پہلے ان کاخمس دیناضروری ہے۔کان سے نکلی ہوئی چیزکانصاب (۱۵؍)مثقال مروجہ سکہ دار سوناہے یعنی اگرکان سے نکالی ہوئی کسی چیز کی قیمت (۱۵؍)مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پرجواخراجات آئے ہوں انہیں منہاکرکے اگر اس کی مقدار پندرہ مثقال مروجہ آنے کے سکہ تک پہونچے تو اس کے بعد کے اخراجات من جملہ اس کےتصفیہ وغیرہ کے خرچ منہا کرنے کے بعد جوباقی بچے اس کاخمس دے۔
(3)دفینہ: دفینہ منتقل ہونے والا وہ مال ہے جو چھپا ہوا ہے اور لوگوں کی دسترسی سے دور ہے جوزمین ،درخت ،پہاڑ یادیوارمیں گڑاہواہو اور ایسی جگہوں پر عام طورسے نہ پایاجاتا ہو۔اگرانسان کوکسی ایسی زمین سے دفینہ ملے جوکسی کی ملکیت نہ ہو یا مردہ ہے اور وہ خود ا س زمین کو آباد کرے اور اس میں کوئی دفینہ مل جائے تو وہ اسے اپنے قبضے میں لے سکتاہے لیکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
(4)غوطہ خوری سے حاصل کئے ہوئے موتی: اگر کوئی نہر یا سمندرمیں غوطہ لگا کر لُو ٔلُو ٔ،مرجان یا دوسرے موتی نکالے توخواہ وہ ایسی چیزوں میں سے ہوں جواگتی ہیں یا معدنیات میں سے ہوں تو نصاب کے مطابق ضروری ہے کہ اس کا خمس دیاجائے ۔مچھلیوں اوران دوسرے (آبی)جانوروں کاخمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائے بغیرحاصل کرتاہے اس صورت میں واجب ہوتاہے جب ان چیزوں سے حاصل کردہ منافع تنہایاکاروبار کے دوسرے منافع سے مل کراس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔
(5)وہ زمین جوذمی کافرکسی مسلمان سے خریدے: اگرذمی کافر مسلمان سے زمین خریدے تومشہورقول کی بناپر اس کا خمس اسی زمین سے یااپنے کسی دوسرے مال سے دے لیکن آیت اللہ سیستانی کے نزدیک خمس کے عام قواعدکے مطابق اس صورت میں خمس کے واجب ہونے میں اشکال ہے۔
(6)وہ حلال مال جوحرام مال میں مخلوط ہوجائے: اگرحلال مال حرام مال کے ساتھ اس طرح مل جائے کہ انسان انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اورحرام مال کے مالک اوراس مال کی مقدار کابھی علم نہ ہو اور یہ بھی علم نہ ہوکہ حرام مال کی مقدارخمس سے کم ہے یازیادہ توتمام مال کاخمس دینے سے حلال ہوجائے گا ۔
(7)کاروبار کامنافع: جب انسان تجارت، صنعت وحرفت یادوسرے کام وغیرہ س پیسہ کمائے اور یہ خود اوراس کے اہل و عیال کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ زائد کمائی کا خمس( یعنی پانچواں حصہ) بلکہ ہر مال مملوک جیسے کسی کو کمائی کئے بغیر کوئی آمدنی ہوجائے مثلاً کسی کو کوئی تحفہ ، میراث ، انعا م ، ہبہ، یا مال وقف سے کوئی فائدہ حاصل ہوجائے اس پر بھی خمس واجب ہے۔ لیکن وہ عورت جو شوہر سے خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے اور اسی طرح ملنے والی دیت پرخمس نہیں ہے۔