- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔۔۔مقاصد اور ضروریات
6 ربيع الاول 1443هـ

"معروف" ہر اس قول اور فعل کو کہا جاتا ہے جو شارع کے نزیک مستحسن ہو اور عقل اس کی تایئد کرے۔اور وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرناہے ۔ اس طرح سے   لوگوں کو  شریعت ا سلامی کے مطابق زندگی گزارنے کی طرف دعوت دینے کا نام امربالمعروف ہے۔

نہی عن المنکر" سے مراد ہر وہ قول اور فعل جو شرعا اور عقلا قبیح ہو جو انسان کو گمراہی کی طرف لے جائے اور اللہ اوراس کے رسول کی نافرمائی کرکے باطل راستے کی طرف لے جاتے ہو، اسکو منکر کہا جاتا ہےاور  اس عمل سے روکنے کا نام نہی عن المنکر ہے یعنی تمام غیرفطری اور غیر اسلامی راستوں اور باتوں سے روکنے کا نام  نہی عن المنکر ہے۔

امربالمعرف اور نہی عن المنکر کے مقاصد:

امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہت سے مقاصد اور اہداف ہیں:

پہلا مقصد:  اصلاح نفس ہے یعنی خود اپنی  اصلاح کرنا اور سیدھے  راستے پرقائم رہنا ہے جیساکہ قران مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

((وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ)) (المائدة-84).

اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے گا۔

دوسرا مقصد: دعوت الی اللہ کے سلسلے میں قول و فعل کے ذریعے لوگو ن کو اچھائی کی طرف دعوت  دینا۔ اللہ تعالی نے اس دعوت کو واجب قرار دیا ہے

((وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المنكر وأولئك هُمُ الْمُفْلِحُونَ)) (آل عمران-104).

اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

تیسرا: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انسانی زندگی کو سنوارنے کا ایک بہترین زریعہ ہے۔ یہ دونوں (امربالمعروف و نہی عن المنکر) انسانی زندگی کے ہر پہلو  ، اعتقادی ، اخلاقی اور اجتماعی کو  شامل  کرتا ہے، اور یہ در حقیقت انسانیت کی فلاح کا یک اہم زریعہ ہے۔  یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں اسلا م کی بنیادی خصوصیات میں سے ہیں اور اس فریضہ کو انجام دے کر ہم انسانیت کی اعلیٰ منزل تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

چوتھا:  بنی نوع انسان  کی روح کو گناہوں کی آلودگی سے بچانا ۔

 ((منَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ)) (الأعراف -201)

ے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی اسی ضمن میں ہے جو اس کی تایید کرتے ہیں "من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه وإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان"

جو کوئی گناہ کرتے ہوے دیکھ لے تو اپنے ہاتھوں سے اس کو روک لین اگر ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے اس روک لیں، اگر زبان سے روکنے کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے رکے (یعنی دل سے اس سے نفرت کرے) اور یہ ایمان کے سب سے کمزور تریں پہلو ہے"

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا آخری مقصد امت اسلامی کی اخلاقی تربیت کرنا تاکہ اس دین مبیں جو آخری دین ہے کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ پیغام اللھی کو لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔

 

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت:

اولا یہ کہ بنی نوع انسان ہر وقت نفس امارہ کی پیروی کرتا ہے جس کی طرف للہ تعالی نے بھی  قرآن مجید میں  اشارہ فرمایا ہے۔

((وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إن رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ)) (يوسف -53)

اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے،بیشک میرا رب بڑا بخشنے، رحم کرنے والا ہے۔

انسان کے لئے اللہ نے حق و باطل کے دونوں راستے واضح کرکے دکھایا لیکن ان راستوں کو انتخاب کرنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ  میں رکھا ہے۔ اس لئے راستے کی انتخاب میں ہر انسان کو رہنمائی کی ضرورت  ہوتی ہے۔ لھذا برے اور گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کے زریعہ اچھی راہ کی طرف دعوت دینا ہماری  اخلاقی اور شرعی فریضہ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

((أدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل -125)

 (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

اور تاکہ اس وعظ و نصیحت کے زریعے صحیح راستے کی انتخاب میں مدد فراہم کرسکے۔ اور یہ امربالمعروف ونہی عن المنکر سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

ثانیا: امربالمعروف صرا ط مستقیم سے  غافل افراد کے لئے ایک تنبیہ  ہے۔ نرمی اور شفقت سے ان کو دوبارہ صحیح راستے  کی طرف لاسکتے ہیں جن سے یہ لوگ غافل ہیں۔

ثالثا:بدعت اور باطل کی طرف آواز دی جائے تو اس راستے پر چلنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فراتے ہیں(( ۔۔قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)) (الأنعام-43)

۔ان کے دل اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے۔

لوگ اس طرح اندھے ہوجاتے ہیں کہ ان کو باطل بھی حق نظر آنے لگتے ہیں لھذا امربالمعروف و نہی عن المنکر کت زریعہ سے شیطانی صفت  لوگوں کے دھوکے میں بھسنے والوں کو نجات مل سکتی ہے ۔ اسی لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اللہ تعالی کے واجب قرار دیا۔

چوتھا: امربالمعروف اورنہی عن امنکر کا عمل ہر صاحب استطاعت شخص پراخلاقا اور شرعا واجب ہے۔ کیونکہ یہ اصلاح  نفس اور اصلاح معاشرے کا ایک بہتریں زریعہ ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی اور رحمت الھی کے نزول کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

((وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ)) (الأعراف-96)

اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے

پانچوا: جب تک حیاتِ انسانی کا وجود باقی رہے گا اس وقت تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا محتاج رہے گا کیونکہ انسان سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں تو ان کی اصلاح اور راہ راست کی طرف دعوت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

((لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)) (النساء-114).

ان لوگوں کی بیشتر سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی صدقہ، نیکی یا لوگوں میں اصلاح کی تلقین کرے اور جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرے تو اسے عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔