اسلام نے بعض ایسے کاموں سے نہیں روکا جو پہلے والے ادیان میں بجالائے جاتے تھے بلکہ کچھ ایسے کاموں کا اسلام تائید اور تصدیق بھی کرتا ہے جو اسلام سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ لیکن کچھ احکام کسی سبب کی بنا پر منسوخ ہوچکے ہیں جو ہم سے اٹھالئے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے ان میں اعرابیت یعنی اسلامی تہذیب و اخلاق سے دوری، اور آباء و اجداد کی پیروی وغیرہ ہے جن کو انہوں نے مذہبی رنگ دے رکھا تھا جبکہ حقیقت میں اسلام ان چیزوں سے کوسوں رور ہیں۔
اسلام جب کسی بھی کام کو ترک کرنے کا حکم کرتا ہے تو اس کی وجہ اس کام کا شرعی احکام سے متصادم، تحریف ہونے یا کسی اور غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیساکہ ہر صاحب ِعلم لوگوں کو ایسے امور سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے جو عقل وفطرۃ سلیمہ کے مخالف ہو۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ہے جو فطری امور سے متصادم ہو اسلام ان چیزوں سے لوگوں کو دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔
اور یہ کہ دین اسلام جو قرآن کریم، و آحادیث معصومین علیھم السلام پر مشتمل ہے اور آسمانی ادیان( یہودیت اور مسیحیت) کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا مرکز و مصدر ایک ہے اور وہ ہے خدا ئے واحد پر ایمان رکھنا۔اسی بناء پر اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے عمل کو ایک اہم معاشرتی فریضہ قرار دینے کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی زیادہ تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس عمل کا نتیجہ بہت عظیم ہے۔
امربالمعروف و نہی عن منکر تمام اسمانی ادیان میں ایک واجب عمل ہے، یہ فریضہ نہ صرف پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر واجب تھا بلکہ تمام انبیاء کرام پر اللہ تعالی نے لازم قرار دیا ہے۔ اسلام نے اس عمل میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ قرآن وسنت نے اس عمل کی اہمیت کو اور اجاگر کیا ہے کیونکہ یہ کسی بھی معاشرہ کوصحیح راہ پر گامزن رکھنے کے لئے ایک لازمی عمل ہے۔
اسی لئے قرآن کریم نے ان اہل کتاب یہود و مسیحیوں کی تعریف کی ہے جو اس فریضہ کو احسنت طریقے سے بجالاتے تھے ۔
((لَيْسُوا سَوَاءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَآئِمَةٌ يَتلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُم يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الخَيْرَاتِ وَأُوْلَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ)) (آل عمران ـ 113 ـ 114).
سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔
وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن کریم نے امت اسلامی کو باقی امتوں سے افضل قرار دے دیا ہے اس کی وجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کے ذریعے سے انسانی تعلقات کو مستحکم کرنا اور انفرادی و اجتماعی سطح پر تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے امت اسلامی کو فضیلت دی ہے۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرناتے ہیں:
((كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ..)) (آل عمران ـ110)
تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کی عظمت کو سابقہ امتوں کی کتابوں ( تورات اور انجیل) میں بھی بیان فرمایا ہے۔ ان اسمانی کتابوں میں آپ ﷺ کی دیگرصفات کے علاوہ آپ ﷺ کو اچھائی کا حکم کرنے والا اور برائی سے روکنے والا جیسے صفات کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))(الأعراف ـ157).
(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اس اہمیت کی وجہ سے پیغمبرت اسلام ﷺ نے اس عمل کی بہت زیادہ وضاحت اور اہمیت بیان فرمائی ہے۔ تاکہ امت اسلامیہ اس واجب عمل کے انجام دہی میں دیگر مذہب کے مقابلے میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ نہ کرے اور ان سے پیچھے نہ رہے۔ جیساکہ آپ ﷺ خطبہ غدیر میں فرماتے ہیں:
"ألا وإني أجدد القول، الا فأقيموا الصلاة، وآتوا الزكاة، وأمروا بالمعروف، وانهوا عن المنكر، ألا وإن رأس الأمر بالمعروف أن تنتهوا إلى قولي، وتبلغوه من لم يحضر، وتأمروه بقبوله، وتنهوه عن مخالفته، فإنه أمر من الله عز وجل ومني، ولا أمر بمعروف ولا نهي عن منكر، الا مع إمام معصوم".
ہٰذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک میں پہر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں:نماز قا ئم کرو، زکوٰة ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برا ئیوں سے روکو۔ اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تھہ تک پہنچ جا وٴ اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچا وٴ اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو اس لئے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بہی ہے اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر ۔
آپ ﷺ نے اس فریضے کو انجام دینے والوں کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ان کو انبیاء اور شہدا ء کی منزلت دی ہے جس پر سب لوگ رشک کرے گا۔ جیساکہ آپﷺ فرماتے ہیں: آگاہ ہوجاؤ؛ میں آپ لوگوں کو ایک ایسی قوم کے بارئے میں خبر دیتا ہوں جو نہ انبیاء میں سے ہونگے اور نہ شہداء میں سے قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں ان کی شان و منزلت دیکھ کر لوگ ان پر رشک کرنگے اور یہ لوگ نور اور چمکتے ہوئے ممبروں پر ہونگے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ یہ لوگ کون ہونگے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں ، اور اللہ ان بندوں سے محبت کرتے ہیں، پوچھا گیا یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے محبت ہے ، تو بندے اللہ سے کیسے محبت کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لوگ ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو اللہ کو پسند ہیں اور ان چیزوں سے روکتا ہے جو اللہ تعالی کو ناپسند ہے جب ان کاموں میں اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تو درحقیقت یہ اللہ سے محبت ہے۔
اسی طرح آپﷺ فرماتے ہیں کہ لوگو ں سے گل ملکر رہنا اور ان کو اچھائی کا حکم اور برائی سے روکنا درحقیقت اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے جو اللہ نے آپ کے نصیب میں رکھا ہے جس کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہئے۔ جیساکہ اہل صفہ میں سے دو مہمان آپ ﷺ کے ہاں آتے ہیں جو ترک دنیا کررکھا ہوا تھا اور لوگوں سے دوری اختیار کیا ہوا تھا۔ اور کہنے لگے: میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی گواہی دیتا ہوں اور جو لوگ حاضر ہیں کہ ہم نے رات کو سونا اپنے اوپر حرام قرار دیا ے۔تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کہ تم نے کچھ نہیں کیونکہ جب تم لوگوں سے نہیں ملتے ہو تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کیسے کرتے ہو؟ سب سے برا قوم وہ ہیں کہ جو اچھائی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے نہیں روکتے، اور برا قوم وہ ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ لوگ برئے ہیں جو اللہ کی عدالت کو قائم نہ کرے اور برا ہے وہ لوگ جو عدل و انصاف کی طرف دعوت دینے والوں کو قتل کرے۔
دوسری طرف آپ ﷺ نے ان لوگوں کو ملتِ اسلامی سے دور رکھنے کا حکم دیا ہے جو امربالمعروف و نہی عن المنکر کو بجا نہیں لاتے کیونکہ امر بالمعروف کو ترک کرنے سے انسانیت کی توھین کے ساتھ معاشرے میں فحاشی اور ناانصافی بھپلنے کا موجب بنتا ہے۔ جیساکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں: "ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ولم يوقر كبيرنا، ولم يأمر بالمعروف، ولم ينه عن المنكر".
"وہ لوگ ہم میں سے نہیں ہے جو بچوں پر رحم اور بڑوں کا احترام نہیں کرتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے"