- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت خدیجہ کبریٰ علیھا السلام سے شادی
15 جمادى الاخير 1440هـ

حضرت خدیجہ کبری عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں-ان کے والد خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی تھے- حضرت خدیجہ کے جد امجد " اسد بن عبدالعزی"، عہد نامہ " حلف الفضول" کے ایک اہم رکن تھے- قصی بن خویلد کے چوتھے جد" قصی بن کلاب" ہیں، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھی جد امجد ہیں-

جناب خویلد کے جد، عبدالعزی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد، عبد مناف آپس میں بھائی تھے اوران کے والد قصی بن کلاب تھے- اس بنا پر  حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب  خدیجہ کبری{س} دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اور شجرہ نسب کے لحاظ سے بھی آپس میں قریبی رشتہ دار تھے-

جناب خویلد، ایک ذہین، بلند مرتبہ، کریم اور نیک اخلاق شخص تھے اور بنی اسد کے سردار کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے- ان کی والدہ، فاطمہ بنت " زائدہ بن الاصم" تھیں- فاطمہ کی ماں، ھالہ بنت " عبد مناف بن قصی" تھیں کہ ان کے تیسرے جد، رسول اللہ کے بھی جد تھے- اس بنا پر حضرت خدیجہ{س} اپنے پدری اور مادری نسب کے لحاظ سے کئی واسطوں کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نسب تھیں اور دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے-

حضرت خدیجہ بنت خویلد ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو  اپنی شرافت و نجابت اور کاروباری معاملات میں ایمانداری اور راست  بازی کی بابت عزت و شہرت کے بلند مقام پر فائز تھا۔ آپ ؑ ایک معزز، مالدار خاتون  ہونے  کےساتھ ساتھ حسن صورت و سیرت، اعلی اخلاقی اقدار اور دین ابراہیمی پر عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے مشہور تھیں۔

حضرت خدیجہ کے والد گرامی کا نام خویلد تھا  کہ جن کے یمن میں بہت سارے دوست اور احباب موجود تھے، لیکن جب یمن کے بادشاہ نے  حجر اسود کو یمن لے جانے کی کوشش کی تو آپ نے اپنے دین اور عقیدہ کا دفاع کرتے ہوئے ان کی سخت مخالفت کی۔

آپ کے جد امجد: ان کا  نام اسد بن عبد العزیٰ تھا جو عہد نامہ " حلف الفضول"  جو مظلوموں کی مدد کے لیے وجود میں آیا تھا اس کے ایک اہم رکن تھے ۔ورقہ بن نوفل ، آپ کے چچازاد بھا ئی تھے، جو یہود اور نصاری کی کتابوں کے عالم تھے، اور ان کے ساتھ رہتے تھے۔

آپ علیھا السلام کی  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے شادی سے پہلے کی سیرت کے بارے میں تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ آپ ؑ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے پہلے بھی شادی ہوئی تھی یا نہیں اس کے بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور محققین اور مورخین کسی ایک نکتہ پر متفق نہیں ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق آپ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے پہلے بھی دو آدمیوں سے شادی ہوئی تھی، اور ان سے اولاد بھی موجود تھیں، لیکن دیگر روایات کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے شادی کے وقت آپ کنواری تھیں۔

اسی طرح شادی کے وقت آپ کی عمر کے بارے میں بھی اختلاف رائے موجود ہے، بعض روایات کے مطابق آپ کی عمر ۲۵ سال، ایک روایت  کے مطابق ۲۸ سال، ایک روایت کے مطابق ۳۰ سال، ایک کے مطابق ۳۵ اور دیگر بعض روایات کے مطابق ۴۰ سال تھی۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجہ کبریٰ علیھا السلام

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی عمر جب  ۲۵ سال کو پہنچی توآپ نے اپنے  چچا حضرت ابوطالب ؑ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت خدیجہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ (جسے مضاربہ کہا جاتا ہے ) کیا۔ اور وہ یہ کہ مال تجارت خدیجہ کا ہوگا اور جدوجہد اور کوشش آپ کریں گے، اور فائدہ دونوں کو ملے گا، اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کا  مال شام لے کر جائیں گے۔ شام کے اس  پہلے تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ اس  تجارتی سفر میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتار، رفتار، امانت اور صداقت اور خارق العادہ واقعات کو دیکھ کر میسرہ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محب پیدا ہوئی، اور یہ سفر فائدہ کے لحاظ سے بھی بہت ہی منافع بخش رہا۔

ازدواج مبارک

سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہکے گوش گزار کی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی صداقت اور امانت اور جو خارق العادہ واقعات دیکھے تھے ان کا بھی ذکر کیا۔اس سے حضرت خدیجہ ؑ کے دل میں آپ صلی الله علیہ وآلہ سلم سے شادی کی خواہش پیدا ہو گئی۔ آپ نے رحمةٌ للعالمین محمد بن عبد اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کی خواہش ظاہرکی ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ذکر اپنے چچا ابوطالب سے کیا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے چچا اس پر خوش ہوئے، اور حضرت ابو طالب اپنے اھل بیت میں سے ایک جماعت کو لیکر باقاعدہ رشتہ لینے کے لیے حضرت خدیجہ کے  گھر گئے جہاں آپ علیھا السلام کے ولی عمر وبن اسد موجود تھے، حضرت ابوطالب ؑ نے گفتگو کا آغاز کیا۔ اور آپ ؑ کی گفتگو کچھ اس طرح تھی: "الحمد لربّ هذا البيت، الذي جعلنا من زرع إبراهيم وذرية إسماعيل وأنزلنا حرماً آمناً، وجعلنا الحكّام على الناس، وبارك لنا في بلدنا الذي نحن فيه .

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد سے، حضرت اسماعیل ؑ کی عترت سے، معدکی نسل سے اور مضر کی نسب سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جو امن آشتی کا مرکز ہے ۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔حمد کے بعد! میرے برادرزادے جن کا اسم گرامی محمدؐ ابنِ عبداللہؐ ہے،ان کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو ان کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔ اگرچہ  ان کے پاس مال ودولت زیادہ نہیں ہے، لیکن یہ مال ودولت ہمیشہ باقی رہنے والی چیز نہیں ہے بلکہ  یہ تو سایہ کی طرح ہے جو زائل ہونے والا ہے۔ ان کو خدیجہ میں رغبت اور دلچسپی ہے اور خدیجہ کو ان سے دلی لگاو اور دلچسپی ہے، ہم  محمد کی رضایت سےان کی طرف سے آپ کے پاس رشتہ لینے آئے ہیں، ان  کا سارا ذمہ میں لے لیتا ہوں اور خدیجہ کا مہر بھی جب وہ چاہے ابھی چاہیے یا بعد میں، میں اپنے مال سے ادا کروں گا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بلند مرتبے اور عظمت کی وجہ سے لوگوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے،  اسی وجہ سے جناب  خدیجہ بنت خویلد نے مہر کی  ذمہ داری خو د اپنے ذمے لی۔ بعض لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوسکا، اور جناب ابوطالب  ؑ پر اعتراضات بھی کئے، اور آپؑ  نے واضح اور مدلل جوابات بھی دیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اولاد کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات اور مختلف نظریات ہیں۔ اہل البیت اطہار ؑ سے منقول بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کی تفصیل یوں ہے:

۱۔ حضرت قاسم

۲۔ حضرت عبداللہ: جو طاہر اور طیب  کے لقب سے  معروف تھے، لیکن بعض دیگر روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دو اور بھی بیٹے تھے جو عبداللہ کے نام سے موسوم تھے۔

۳۔ ام کلثوم

۴۔ رقیہ

۵۔ زینب

۶۔ فاطمہ

مکتب اہل البیت ع کے برجستہ عالم دین شیخ  طبرسی ؒ فرماتے ہیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سب سے پہلے فرزند کا نام عبداللہ تھا اور ان کو طیب اورطاہرکے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں لوگ اشتباہ کرتے ہیں کہ آپ کی اولاد میں سے چار بیٹے تھے جن کو بالترتیب قاسم، عبداللہ، طیب اور طاہر کہا جاتا تھا، جبکہ حقیقت میں آپ کے دو بیٹے تھے اور ان میں سے دوسرے کا نام قاسم تھا اور بعض کے مطابق قاسم آپ کے  بڑے فرزند تھے اور اسی وجہ  سےآپ کی کنیت ابو القاسم  تھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی چار بیٹیاں تھیں: جن کا نام زینب، رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہ تھا۔

لیکن مکتب اہل البیت  کے عظیم عالم علامہ مجلسیؒ  (1037- 1111ھ) کازرونی سے اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے  بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اولاد میں سب سے پہلے جس کی ولادت ہوئی وہ  جناب قاسم تھے اور ان کی ولادت آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بعثت سے پہلے ہوئی، اسی کی وجہ سے آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی چار بیٹیاں تھیں، جن کے نام: زینب، رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہ ہیں۔