ہر محقق کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے کہ پہلے مرحلے میں اس دنیا کے رب پر ایمان لانا ہے اور ساتھ ان تمام انبیاء پر بھی ایمان لانا ہے جو اس رب کی طرف سے بھیجے گئے جو نہ تو آنکھوں سے نطر آتا ہےا ور نہ ہی حواس کے ادراک میں ہے اور انسان خود سے اس قابل نہیں ہے کہ اس معرفت کو حاصل کر سکے۔
کوئی بھی دقت سے نہیں بتا سکتا کہ کب ہمارے باپ حضرت آدمؑ زمین پر اترے ،بعض اشارات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ تقریبا دس ہزار سال پہلے آئے تھے۔جو بات اہم ہے وہ یہ کہ حضرت آدم ؑ کے آنے سے لیکر آج تک کا جو محدود زمانہ ہے اس میں زمین انبیاء،اوصیاء اور اللہ کی زمین پر حجتوں سے خالی نہیں رہی۔زمین پر مختلف زمانے اور جگہوں پر نبی اور رسول آتے رہے ہیں یہاں تک کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء زمین پر مبعوث کیے گئے،سب کے سب انبیاء اللہ کی طرف سے حق لیکر آئے،ان کا پیغام اللہ کا پیغام تھا،ان کا حکم اللہ کا حکم تھا،ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت تھی،ان کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی تھی اور وہ خود سے نہیں بولتے تھے بلکہ اللہ کی وحی سے کلام کرتے تھے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((ما ينطق عن الهوى إن هو الا وحي يوحى ))(النجم۴ -3)
اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے،اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ان تمام انبیاء کے پانچ انبیاء سردار ہیں اور وہ العزم انبیاء کہلاتے ہیں ان کے نام یہ ہیں حضرت نوحؑ،حضرت براہیمؑ ،حضرت موسیؑ ،حضرت عیسیؑ اور حضرت محمدﷺ ۔ نبی اکرمﷺ تمام انبیاءؑ سمیت تمام انسانون سے سے افضل ہیں جو حق لیکر آئے اور تمام انبیاء اللہ کا پیغام لیکر آئے سب پر لاکھوں کروڑوں درود سلام ہوں۔