- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


قرآن میں لفظ نبی ؑ اور رسولؑ کے استعمال میں فرق
27 محرم 1443هـ

قرآن مجید کی تمام آیات میں مترادف الفاظ نہیں پائے جاتے ۔یہ ایسی خصوصیت ہے جس کے ذریعے قرآن دوسری عربی نصوص اور کتب سے ممتاز ہو جاتا ہے۔یہ ایسی بات ہے جس کی طرف قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر کرنے والوں کی توجہ ہونی چاہیے کہ وہ جب ترجمہ و تفسیر کریں تو اس بات کا خصوصی خیال رکھیں۔قرآن میں مترادفات کے نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں کم الفاظ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ممکنہ معانی کو پہنچانا چاہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی قرآنی متن میں غیر ضروری طوالت سے بھی اس کتاب کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔یہ وہ کتاب ہے جو آسمانوں سے انسان کی زندگی کو منظم و بہتر کرنے کے لیے نازل کی گئی ہے تاکہ لوگ اس فطرت پر قائم رہیں جس پر اللہ تعالی نے انہیں خلق کیا ہے۔کم الفاظ میں بہت زیادہ معانی کا اظہار یہ قرآن مجید کی قوت بیان کا مظہر ہے۔

اس مقام پر ہم ان الفاظ کو بطور مثال ذکر کریں گے جنہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک ہی ہستی یعنی نبی اکرم کے لیے بیان کیا ہے ۔وہ دو نبیؑ اور رسولؑ کے الفاظ ہیں ،قرآن مجید کی تفسیر کرنے والے بہت سارے لوگوں نے ان دونوں الفاظ کو ایک ہی معنی میں لیا ہے کہ وہ نبی اکرم ہیں۔یہ مفسرین اس طرف متوجہ نہیں ہوئے کہ یہاں ایک دقیق فرق موجود ہے جس پر دونوں کے معنی الگ الگ منطبق ہو سکتے ہیں اور سیاق میں موجود اس معنی کا ان الفاظ کو سمجھنے میں بڑا عمل دخل ہے۔اگر ہم ہر لفظ میں غور کریں اور ان دونوں کے سیاق کو دیکھیں تو یہ پتہ چلے گا کہ ہر دو الفاظ کے معانی مختلف ہیں اگرچہ خارج میں ان دونوں کا مصداق ایک ہی ہے۔لفظ"رسول" اللہ کے نبی محمد بن عبداللہ کی صفت ہے اس حیثیت سے کہ اللہ تعالی نے آ پ کو بندوں کی طرف بھیجا ہے۔لفظ نبی میں بھی یہی صورتحال ہے وہ رسول محمد بن عبداللہ ﷺ کی صفت ہے لیکن اس حیثیت سے کہ وہ اللہ کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔

رسالت اور نبوت دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں مگر یہ دونوں متغایر ہیں کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا خاص مرتبہ اور خاص ذمہ داریاں ہیں اور ہم یہ اللہ کے اس فرمان سے سمجھتے ہیں:

((وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ))(الحج ـ52)

اور (اے رسول) آپ سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی مگر جب اس نے (کامیابی کی) تمنا کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی لیکن اللہ شیطان کے خلل کو نابود کرتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

ان دو میں سے ہر ایک کے لیے خاص مقام اور خاص صلاحیتیں ہیں،اسی طرح یہ کبھی ایک ہی شخص میں جمع ہو جاتی ہیں کہ ایک ہی شخص بیک وقت نبی ؑ بھی ہوتا ہے اور رسولؑ بھی ہوتا ہے اور کبھی یہ جمع نہیں ہوتیں کہ ایک شخص  نبیؑ تو  ہوتا ہے مگر رسولؑ نہیں ہوتا۔اس بنیاد پر جب اللہ تعالی قرآن مجید میں لفظ رسول یا لفظ نبی استعمال کرتا ہے تو ہمیں ان لطیف امتیازات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور ہر ایک کی خاص حیثیت ہی اس کو دینی چاہیے۔یہ بات نبی اکرمﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے قرآن میں کیے گئے ان خطابات سے مزید واضح ہو جاتی ہے جن میں بعض میں نبی اور بعض میں رسول کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے۔جیسے يأيُّها النّبيّ اور يا أيُّها الرسول۔

اگر ہم قرآن مجید کےان تمام موارد کو شمار کریں جہاں اللہ نے نبی اکرمﷺ کو نبی یا رسول کے ذریعے خطاب کیا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ نے لفظ رسولؑ کے ذریعے فقط دو جگہ پر خظاب فرمایا ہے اور لفظ نبی کے ذریعے تیرہ جگہ خطاب فرمایا ہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے ایک مرتبہ مدثر اور ایک مرتبہ ہی مزمل کہہ کر بھی خطاب کیا ہے۔اگر ہم ان موارد پر غور کریں جہاں جہاں ان دوالقابات کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے تو ہم ان میں نمایاں فرق پاتے ہیں جہاں بھی اللہ نے رسول کے ذریعے خطاب فرمایا ہے وہاں ان ذمہ داریوں اور حیثیت کی بات ہے جو رسالت کی ہیں اور جہاں نبی کے ذریعے  خطاب فرمایا ہے وہاں ان ذمہ داریوں اور حیثیت کی بات ہے جو بطور نبی آپ پر تھیں۔

بات اس سے بھی واضح ہو جائے گی اللہ تعالی نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کیا ہے اس سے پہلے ان کی اس حیثیت کو معین کیا گیا ہے جس سے یہ خطاب ہے۔اس سے پہلے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی حکم دیا جاتا اس سے پہلے یہ معین کیا گیا ہے کہ یہ خطاب خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے یا یہ خطاب بحیثیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یا کسی اور حیثیت سے ہےجیسے ذاتی حیثیت سے خطاب کرنا اصلاح اور شخصی تربیت کے لیے جس ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ نے لفظ مزمل کے ذریعے سے اپنے نبی ﷺ کومخاطب کیا  اس میں  اس ہمدردی اور ذاتی اصلاح کا عنصر ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نبی اکرمﷺ کو خطاب کیا ہے اور اسی خطاب کے مطابق ہی وحی کو اتارا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب خطاب کا تعلق رسالت سے تھا تو آپﷺ کو رسول کہہ کر خطاب کیا گیا اور جب یہ خطاب نبوت سے خاص تھا تو آپ کو نبی کہہ کر خطاب کیا گیا۔اسی لیے اللہ نے رسالت والے خطابات کے وقت رسول کا لفظ استعمال کیا ہے ورنہ عام طور پر لفظ نبی کے ذریعے ہی خطاب کیا ہے یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ نبوت رسالت سے پہلے آتی ہے۔

جو کچھ بیان ہوا اسے اس آیت کریمہ کے ذریعے بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ)(المائدة ـ67)

اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی پہلے آپﷺ کی رسالت کی حیثیت کا لحاظ کیا اور پھر خطاب فرمایا ہے اور لفظ رسول کو استعمال کیا ہے۔ہم اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خطاب اپنے اندر جو پیغام لیے ہوئے ہے اس کا تعلق رسالت سے ہے۔مزید واضح انداز میں اگر سمجھنا چاہیں تو یہ کہ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے یہ ان امور میں سے ہیں جن کا تعلق رسالت سے ہے جس کے لیے نبی اکرم کو مبعوث فرمایا گیا۔اس آیت میں رسالت کا جو معنی آیا ہے جس کو ہم اس کے سیاق سے سمجھتے ہیں کہ یہ حکم ایسے امور میں سے ہے جن کے لیے نبی اکرم کو مبعوث فرمایا گیا۔اللہ تعالی نے ان تمام امور رسالت کی تبلیغ کے قبول کو اس آیت میں موجود حکم پر موقوف کر دیا یہ اس حکم کی اہمیت  کا عکاس ہے کیونکہ اس ایک حکم کی تبلیغ کو تمام رسالت کی تبلیغ کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

ہم اس کی طرف بھی اشارہ کر دیتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ رسول استعمال ہوا ہے اس کے بعد ذکر ہوئے امور کا تعلق عہدہ رسالت سے ہے۔ جہاں بھی لفظ نبی ؑ استعمال ہوا ہے اس سے پہلے اور اس سے بعد والے امور کا تعلق نبوت حضرت محمد سے ہوتا ہے۔قرآن مجید میں چار ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ کے نبی کو خطاب فرمایا گیا ہے مگر  وہاں نبوت یا رسالت کی حیثیت کی طرف اشارہ نہیں ہے۔