- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام: امن و آشتی کا دین
25 محرم 1444هـ

امن تعلقات کو معمول پر لانے ،جھگڑوں سے پرہیز کرنے  اور تمام فریقوں کا تناو کو ختم کرنے کا نام ہے۔اگر اسے عام اور سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن دراصل دوسرے فریق کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی حالت کو کہتے ہیں۔

امن ہی اصل زندگی ہے جنگ ایک غیر عادی امر ہے،امن ایک ہمیشہ رہنے والی حقیقت ہے اور جنگ آنےجانے والی جزئی ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امن زندگی اور جنگ موت کا نام ہے۔ شریعت اسلامی نے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے درمیان اصل امن کو قرار دیا ہے۔جنگ کو دشمنی روکنے،دین،مال اور جسموں کے حفاظت کے لیے ہی کرنے کا کہا ہے۔

عربی میں امن کو السلام کہتے ہیں اور "السلام" اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے یہ بھلائی اور سخاوت کا نشان ہے۔ جیسے اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک دار السلام ہے یہ لفظ بھلائی،محبت اور لطف پر دلالت کرتا ہے ۔ جب مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے السلام علیکم اور دوسرا جواب دیتا ہے وعلیکم السلام ۔ اسلام وہ دین ہے جو امن پر یقین رکھتا ہے اور جنگ،قتل اور افرا تفری سے روکتا ہے اسلام امن کو زندگی اور جنگ کو موت قرار دیتا ہے۔اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ زندہ رہیں نہ یہ کہ قتل و غارت کریں اور مر جائیں۔اس بنیاد پر اللہ امن کے ساتھ ہے اور جنگ والوں کے ساتھ نہیں ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے اسلام امن کو پسند کرتا ہے اور اسی کو چاہتا ہے تو نبی اکرمﷺ نے کفار اور مشرکین سے جنگیں کیوں کیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ جنگ جس میں نبی اکرمﷺ شامل ہوئے وہ دفاعی جنگ تھی اقدامی جنگ نہیں تھی جیسے جنگ بدر و احد اور دوسری جنگیں۔اسلام اس وقت بالکل نیا نیا تھا اور جو بھی آغاز کر رہا ہو اس کی ابتداء میں قوت کم ہوتی ہےایسے وقت میں اگر وہ چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرتا تو اس کے آس پاس موجود  دشمنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ  وہ اسے ختم کر دیں۔اس لیے آغاز میں اسلام نے جہاد پر اعتماد کیا،  اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعے دوسروں پر حملہ کیا  جائے بلکہ اس لیے کہ  دوسروں کے حملوں سے خود کو بچایا جائے ۔

جہاد کے کافی فوائد ہیں ہم ان میں سے اہم کو ذکر کرتے ہیں:

۱۔جب کفار و منافقین نے  مسلمانوں کی تیاری اور ان کی قوت دیکھی کہ وہ دفاع کر سکتے ہیں تو خوفزدہ ہو گئے اور ان کے سامنے آنے سے قطرانے لگے یہیں سے امن متحقق ہوتا ہے۔

۲۔اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہیں تو  انہیں جزیہ دینا پڑے گا۔

۳۔وہ ان کفار کی مدد سے اجتناب کریں گے جو  مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔

۴۔یہ بھی ہوتا ہے کہ  خوف ان کی دشمنی کو کم کرے دے اور وہ اسلام کو قبول کر لیں۔

جہاد کی اقسام :جہاد کی دو اقسام ہیں

۱۔جہاد دفاعی یعنی اپنا دفاع کرنا ،اس  کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کہ  مسلمانوں  اور ان کی  زمینوں سے  دشمنوں کو بچانے کے لیے جہاد کیا جاتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(سورہ الحج۔۳۹)

 جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

۲۔جہاد طلبی ،اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اس  میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا،پھر انہیں اسلام کی دعوت دیتا  کہ وہ اسلام  قبول کر لیں،اب یہ ان پر ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا اپنے دین پر باقی رہیں یہ بھی درست ہے۔

اسلام نے روم و فارس سے جنگ کیوں کی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فارس اور روم دو بڑی طاقتیں تھی جو باہم جنگیں کرتی رہتی تھیں ان دونوں طاقتوں کی عرب مملکت کی اسلامی زمینوں پر نطر تھی ،اسی لیے ان کا جواب دینا اور ان کی توسیع پسندی کو روکنا ضروری ہو گیا تھا کہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کے مراکز کو تباہ کر دیا جائے ۔ماہرین یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر پہلے حملہ کرنا پیچھے رہ کر حملہ کے انتظار کرنے سے بہتر دفاع ہوتا ہے۔ ماہرین جنگ یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر حملہ کرنا دشمن کےمنصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اسلام جنگ،قتل وغارت اور دشمنی پر یقین نہیں رکھتا اورنہ ہی اسے کسی کے مال و دولت میں کوئی دلچسپی ہے اس لیے اسلام نے جو جنگیں کی ہیں وہ سب کی سب دفاعی جنگیں تھی کوئی بھی اقدامی جنگ نہیں تھی۔