- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


قیروان ... افریقہ اور اندلس میں باب الاسلام
26 ربيع الاخير 1441هـ

مسلمانوں نے جن جن سرزمینوں پر قدم رکھا انہیں ثقافت و علوم کا مرکز بنا دیا ۔یہ فقط دینی علوم کے مرکز نہ تھے بلکہ سائنسی علوم کے بھی مرکز بنے۔ان سرزمینوں پر بڑے بڑے سائنسدان اور سکالر پیدا ہوئے۔یہ علاقے دنیا بھر میں علم کے طالب علموں کے لیے پرکشش مرکز بن گئے اور پوری دنیا سے طلبا ان علاقوں کی طرف کھچے چلے آتے تھے۔  دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سائنس کے طلباء کے لئے ایک منزل تھے۔ جیسے بغداد ، بخارا ، قرطبہ اور قیروان ۔قیروان ایک بڑا نام ہے۔

قیروان کا جغرافیہ

قیروان شمالی افریقہ کے اہم اسلامی ملک تیونس میں ہے۔یہ  شمالی افریقہ میں ایک اہم اسلامی شہر ہے۔یہ شہر اسلامی میراث کا امین ہے۔ دارالحکومت تیونس سے 160 کلومیٹر دور واقع ہے۔ تین کلومیٹر سے زیادہ کی لمبائی67120 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔اس شہر کی آبادی  570559 افراد پر مشتمل ہے ۔اس کا خاص فن تعمیر ہے جس میں  گھروں کے ساتھ بالکونیاں بنی ہوئی ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے شماریات کے سروے کے مطابق سطح سمندر سے اس کی بلندی اڑسٹھ میٹر ہے ۱۹۸۸ء میں اسے یونیسکو نے بین الاقوامی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔

قیروان کی تاریخ

50 ہجری / 670 عیسوی میں عقبہ ابن نافی نے اس عظیم  شہر کی بنیاد رکھی ، جو مسلمانوں کے لئے آرام کا مرکز اور افریقہ اور اندلس میں مسلمانوں کی آمد کا  نقطہ آغاز تھا ، یہ بہت اہمیت کا حامل تھا ، کیوں کہ فقہا اسے مقدس مانتے ہیں ، یعنی مکہ ، مدینہ اور بیت المقدس کو بڑا تقدس ہے ۔ قیران کا بھی اہم مقام  ہے۔ عقبہ بن نافی نے یہاں ایک بڑی مسجد تعمیر کرائی جسے مسجد عقبہ کے نام سے موسوم کیا گیا ، اور اس کے بعد اس کا نام بدل کر مسجد قیروان رکھ دیا گیا ، جو بعد میں اسلامی ثقافت کا مرکز اور اندلس میں دینی علوم اور عربی زبان کا مرکز بن  گیا۔

قیروان شمالی افریقہ میں واقع ریاست کا دارالحکومت تھا ،یہ ریاست ۸۰۰ عیسوی سے ۹۰۹ عیسوی تک قائم رہی۔یہ ریاست دفاعی نقطہ نظر سے بہت اہم تھی۔اس ریاست نے ایک لمبی مدت تک عباسی ریاست کے گرد ایک دفاعی حصار کا کام کیا اور کسی بھی حملہ آور کو مرکز پر حملہ کرنے سے روکے رکھا۔

اس کی بنیاد کے ساتھ ہی یہاں مسلمان آباد ہوئے  یہاں آباد اقوام میں  عرب،بربر،فارسی،رومی اور یونانی  شامل ہیں۔ان لوگوں کے عقائد و مذاہب مختلف تھے ،اسلام نے تمام لوگوں کو بغیر کسی فرق کے مذہب کی مکمل آزادی دی اور ان کا تحفظ کیا۔یہ شہر اس حوالے سے بہت اہم تھا کہ یہاں یہودی  اور مسیحی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ہر شخص کو مذہب پر عمل کرنے کی انفرادی آزادی تھی اس آزادی کو مزید وسعت دینے کے لیے  ۱۷۷ھ میں یہاں کے مسیحیوں کو چرچ بنانے کی اجازت دی گئی۔

قیروان  کی سائنسی اور ثقافتی حیثیت

تنونس کے سائنسی اور ثقافتی مراکز کی فہرست میں قیروان کا نمبر پہلا تھا ہے ، اس کے بعد  مراکش کا شہر فاس تھا اور دنیا میں اس  علم و حکمت کا مرکز اور سائنس کا  اس زمانے میں بغداد کے ہم پلہ شہر تھا۔

قیروان یونیورسٹی

یہ شمالی افریقہ میں اسلامی ثقافت کی علامت ہےاور مغرب اسلامی میں اسلامی فن تعمیر کی  شاہکار ہے۔اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں ایک عظیم مسلم تہذیب تھی۔اس کی تعمیر و ترقی کا عمل ہر دور میں جاری رہا  اور آج بھی جاری ہے۔جس کا رقبہ 9700 میٹرہے ، لمبائی 126 میٹر اور اس کا عرض ۷۷میٹر ہے اس میں نمازیوں کی بڑی تعدادا سما سکتی ہے۔ اس مسجد میں ایک بہت بڑا صحن ہے جو چھ گنبد پر مشتمل ہے جس میں بڑی بڑی اسلامی شخصیات دفن  ہیں ، سب سے بڑی شخصیت  صحابی رسول ﷺابو زمعہ البلاوی کی ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی اہم جگہیں ہیں۔ ایک محل ہے جسے  800 ء  میں قائم کیا گیا تھا ، اسے عباسی محل کہتے ہیں۔ تاریخی کھنڈرات ، دیگر تاریخی یادگاریں ، جیسے بن خیروون اندلسی کی مسجد جو صحابی رسول ابوزمعہ البلادی کے مقبرے پر بنائی گئی تھی ، یہ صحابی قیروان کے آباد ہونے سے پہلے وہاں آئے تھے اور وہیں فوت ہو گئے اور ادھر ہی دفن ہوئے ۔ جامعہ قیروان میں دروس کا اہتمام کیا جاتا تھا جس میں فقہ اور عربی اور قرآن کے موضوعات شامل تھے۔ علوم اسلامیہ کے  ساتھ ساتھ یہاں سائنس کے بھی بڑے علما تھے۔پورے شہر میں مختلف مدارس تھے جن میں فقہاء اور علما پڑھانے تھے اور اسلامی دنیا سے بڑی تعداد میں لوگ وہاں پڑھنے کے لیے آتے تھے۔اس وقت اس شہر کو دارالحکمت کہتے تھے۔ان اداروں کو موجودہ دور کی یونیورسٹیوں کے مشابہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں اساتذہ چلاتے تھے اور ان میں تخصص کی سہولت موجود تھی۔ یہ مغرب اسلامی کی بڑی یونیورسٹی ہی تہی یہاں تک کہ حسن ثانی نے کاسابلانکا میں ۱۹۹۱ء میں ایک بڑی یونیورسٹی کی بنیا درکھی ۔

بیت الحکمہ

875 ء میں، شہزادہ ابراہیم دوم الاغلیبی نے ایک بہت بڑا سائنسی ادارہ بیت الحکمہ قائم کیا، جوبڑےتعلیمی اداروں اور کتب خانوں پر مشتمل تھا جس میں قیمتی دینی، سائنسی کتب اور قدیم مخطوطات شامل تھے۔ الابراہیم ابن احمد الاغلیب ہر چھ ماہ بعد ایک وفد  بغداد بھیجتا تھا۔ وہاں سے مخطوطات اور کتب یہاں منگواتا جس سے قیروان کی علمی ترقی میں نمایا ں اضافہ ہوا، اس نے   ملک میں  مشرق و مغرب کے اس وقت کے بہترین سائنس دانوں ، ڈاکٹروں اور ماہرین فلکیات کو جمع کر دیا ، انہیں فلکیاتی آلات ، طبی اور انجینئرنگ کا سامان مہیا کیا ۔یہاں تک کہ قیروان مرکزی دارالحکمہ کا مقابلہ کرنے لگا۔