- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


شمالی روس کا سرد ترین علاقہ ۔۔مورمانسک اسلامی روپ میں
28 شوال 1441هـ

دارالحکومت ماسکو سے دوہزار کلومیٹر دور، روس کے انتہائی شمال مغرب میں بحرالکاہل کے کنارے مرمانسک واقع ہے۔اس پر برف کی سفید چادر پھیلی ہوئی ہے جو بحر شمالی جسے باریناس کہا جاتا ہے میں واقع ہے۔یہ دنیا کے سرد ترین علاقوں میں سے ہے جہاں کا درجہ حرارت منفی بیس تک جاتا ہے۔مرمانسک روسی ریاست ہے جس کا رقبہ ڈیڑھ سو مربع کلومیٹر ہے۔دوسری جنگ عظیم میں یہاں جرمنی  نے حملہ کیا  اس شہر نے جرمن حملے کا سامنا کیا اور جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا  اس  بہادری پر اس شہر کو بہادر شہر کا لقب دیا گیا ہے۔

یہ  سمندر کے کناے واقع ہے جہاں روسی فوج کی اہم تنصیبات ہیں سینکڑوں آبدوزیں ،جنگی جہاز یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیار بھی یہیں ہیں۔اس شہر میں پچانویں ہزار مسلمان زندگی گزار رہے ہیں ان میں مشترک بات ان کا اسلامی شناخت کا تحفظ ہے۔یہ روسی  ہیں  مگر ان کی اکثریت روسی النسل نہیں ہے ان مسلمانوں کا تعلق سوویت یونین کی سابقہ ریاستوں  جیسے چیچنیا،ترکمانستا ن اور افغانستان سے ہے جنہوں نے مرمانسک کو اپنا وطن بنا لیا ہے۔

صرف مرمانسک سینٹر میں تقریبا (70،000) روسی مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کی بات کی جائے تو شہروں، مضافاتی علاقوں اور دیگر علاقوں میں تیرہ فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔اس میں (30) سے زیادہ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے (20،000،000) مسلمان آباد ہیں۔ مرمانسک ایک فوجی شہر ہے یہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہاں سے باہر جائیں یا واپس آئیں تو انہیں خاص قسم کے اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے۔شناخت کرانے کے بعد بغیر کسی مشکل کے وہ یہ امور انجام دے  سکتے ہیں۔

جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ مرمانسک قطب شمالی کے قریب ہے اس لیے یہاں سال کے آٹھ ماہ شدید سردی پڑتی ہے یہ سردی کا طویل عرصہ ہے۔گرمیوں میں  یہاں سورج کے طلوع کرنے اور غروب ہونے میں فرق کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ اس  قطب شمالی میں ہونا ہے۔یہاں دن اور رات میں  فرق نہیں رہتا اور سورج کو مشرق سے طلوع ہوتے اور مغرب میں غروب ہوتے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔اس سے شرعی حوالے سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ یہ روزہ کیسے رکھیں گے؟ کیونکہ طلوع و غروب  کی تفریق ممکن نہیں رہی۔اس شہر کے لوگ قریبی شہروں کے مطابق روزوں کا اہتمام کرتے ہیں جہاں  یہ فرق کرنا ممکن ہے۔

مرمانسک میں  مسلمانوں کی کثیر تعداد رہتی ہے مگر انہیں مساجد،اسلامی ثقافت کے مراکز اور مدارس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ان کی تعمیر  مسلمانوں کے دیے گئے عطیات سے ہی ممکن ہے۔