- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


امت وسط"... نہ افراط اور نہ تفریط
27 شوال 1441هـ

امت مسلمہ باقی امتوں سے جس بات کے ذریعے ممتاز ہو جاتی ہےاور باقی امتوں میں جس کے ذریعے یہ امت پہچانی جاتی ہے، جس کا ذکر خاص طور پر قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے: (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا)(البقرة ـ 143) وہ خاص خصوصیت اس امت کا "امت وسط" ہونا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرنے والی امت ، اس طریقے سے یہ امت دو متضاد اطراف کے درمیان توازن قائم کر لیتی ہے ، اور اپنے پیروکاروں کواللہ تعالی کی ہدایات پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے ۔ یوں  مسلمان عدل کو قائم کرتے ہیں ، خیر کو پھیلاتے ہیں اور اچھائی پر خرچ کرتے ہیں، خدا کی عبودیت کو عملی بناتے ہیں،  زمین کو آباد کرتے ہیں، حقوق الناس کا خیال رکھتے ہیں، اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتے ہیں۔ پس وسطیت کا مطلب دین و دنیا کے تمام امور میں اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرنا ہے۔

اسلام نے تمام دینی و دنیاوی امور میں اعتدال کی جانب دعوت دی ہے ، لہذا اسلام کا مطلب ہی فرد اور معاشرہ دونوں کے حقوق میں اعتدال پیدا کرنا ہے ۔ اسی طرح اسلام انسان کی روحانی اور مادی زندگی میں بھی اسی فطرت الہی کے مطابق کہ جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے ،اعتدال و توازن کو برقرار رکھناچاہتا ہے ۔ کیونکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو بیک وقت انسان کے روحانی وجسمانی دونوں قسم کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے۔

ہم بڑے ہی سادہ اور آسان طریقے سے صفت اعتدال کی جڑوں کو انسانی وجود کے اندر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ انسان، روح اور بدن کا مجموعہ ہے ، پس انسان نہ صرف بدن ہے اور نہ ہی صرف روح، لہذا روح کے بغیر انسان ترقی و تکامل نہیں پا سکتا ،اور بغیر جسم کے وہ دنیا میں زندگی نہیں گزار سکتا۔

اسی طرح اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کو اپنے تمام دنیاوی معاملات میں خواہ وہ مادی ہوں یا معنوی ۔  اسی حالت ۔ وسطیہ ۔ ہی کی رعایت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

ذیل میں ہم بعض امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں

عقیدہ میں وسطیت اور اعتدال:

دنیا میں آنے کے بعد انسان کو کائنات کے بارے میں ایک ایسے عقیدے یا نظرئے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس پر وہ اپنی زندگی نطام کو قائم کر سکے ، تاکہ اس کی زندگی میں کوئی نظم و ضبط پیدا ہو اور دونوں جہانوں میں وہ اپنے مقررہ ہدف اور سعادت تک پہنچ سکے۔ اس میدان میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کی فطرت اسے ایک خالق کے وجود کا اقرار کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور خالق کے نہ ہونے اور اس بات میں شک نہ کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے ۔ پس یہاں وسطیت یعنی درمیانہ راستہ یہی ہے خالق کے وجود کا اقرار کیا جائے اس طرح الحاد کی نفی ہوجاتی ہے ،بالکل اسی طریقے سے اسی ایک خلاق کے علاوہ کسی بھی دوسرے خالق کی نفی کرنا کہ جس سے شرک کی نفی ہو جاتی ہے ۔ بتحقیق اللہ تعالی ان لوگوں کی مذمت کی ہے کفر اختیار کرے اور اللہ کے مبعوث کردہ انبیاء کو قتل کرے ۔

(أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ)  تو کیا جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات کے خلاف (احکام لے کر) آئے تو تم اکڑ گئے، پھر تم نے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو تم لوگ قتل کرتے رہے؟

 (البقرة ـ 87)، کیونکہ یہ انتہا پسندی اور حد اعتدال سے نکلنے کے مطاہر میں سے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے مشرکین کی اس بات پر بھی مذمت کی ہے کہ وہ مخلوق خدا کو ان کی حد سے آگے نکال کر ان کے مقام میں غلو کرتے تھے ۔ (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ) انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔(التوبةـ31)

عقیدہ نبوت وامامت میں میانہ روی:

اس کا مطلب بھی نبوت و امامت پر ایمان رکھنا اور ان دونوں کی نسبت غلو سے دور رہنا ہے، کہ جس سے قرآن و احادیث میں نہی کی گئی ہے ، جس طرح آیت مجیدہ میں بیان ہوا۔

)مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ(

اور کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے:اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا:) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔ (آلعمران 79)  ) وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) اور وہ تمہیں فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنانے کا حکم نہیں دے گا، کیا (ایک نبی) تمہیں مسلمان ہو جانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟ (آل عمران 80).

عام روشِ زندگی میں میانہ روی

کائنات کے بارے میں ایک تکوینی عقیدے کے بعد انسان کو اپنی عبادی ، تربتی اور اجتماعی زندگی کو منظم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں اسلام بطور کلی انسان کی زندگی کے امور میں اعتدال کی دعوت دیتا ہے ۔ پس انسان نہ آخرت کے لئے دنیا کو مکمل ترک کرے اور نہ ہی دنیا کے لئے آخرت کو مکمل ترک کرے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: (وَابْتَغِ فِيمَا آَتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآَخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا) اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔(القصص ـ77)

عبادات میں میانہ روی:

عبادات میں میانہ روی سے مراد یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال کی عبادت کرنے میں افراط سے کام لیتے ہوئے دینا کی پاک چیزوں اور لذات میں سے جن کو خدا نے حلال قرار دیا ہے ان سے اپنے آپ کو محروم نہ کر دے ، اسی طرح یوں بھی نہ ہو کہ انسان اپنی پوری توجہ دنیا کی مال و دولت پر مرکوز کر کے خدا کی عبادت ہی کو فراموش کر دے ۔ اسی بات کی طرف آیت مجیدہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو) (9)فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(

پھر جب نماز ختم ہو جائے تو (اپنے کاموں کی طرف) زمین میں بکھر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (10)

(وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ( اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑے چھوڑ دیا، کہدیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (11) (سورة الجمعة ـ 9-11(

اس کے علاوہ اجتماعی اور تربیتی امور میں اعتدال کےحوالے سے مختصرا ہم درج ذیل امور کا ذکر کر سکتے ہیں ،

جذبات اور احساسات میں میانہ روی:

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو رکھے اور محبت یا عداوت میں مبالغہ اور افراط سے اپنے آپ کو بچائے ۔ جب تک انسان اس دنیا میں زندگی گزارتا ہے ،اس کے تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھاؤاور تغیر وتبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس میں غلط فہمیاں ،مفادات کا ٹکراؤ ،اختلاف رائے جیسے عوامل کے نتیجے میں دوست دشمن اور دشمن دوست میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور تعلقات میں یہی تبدیلیاں بعض اوقات انسان کے ا  جذبات کو بہت بری طرح متاثر کرتی ہیں ۔ ایسی حالات میں اگر وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات میں میانہ روی کا خیال رکھنے والا ہوتعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں ہونے والی نفسیاتی مشکلات کو وہ خدا کے اذن اور اپنی میانہ روی کی مدد سے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اور اجتماعی زندگی کے یہ پیچ وخم اس شخص پر بہت گران نہیں گزرتے جتنا یہ اس شخص پر گراں گزرتے ہیں جو لوگوں کے ساتھ تعلقات میں افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ اسی لئے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا  "أحبب حبيبك هوناً ما، فعسى أن يكون بغيضك يوماً ما، وابغض بغيضك هوناً ما فعسى أن يكون حبيبك يوماً ما" اپنے چاہنے والےکو ایک حد تک چاہو ممکن ہے کسی دن وہ نفرت کرنے والا بن جائے ، اسی طرح اپنےنفرت کرنے  والوں سے نفرت کو بھی ایک حد تک رکھو ،ہو سکتا ہے کسی دن وہ تمہارا چاہنے والا بن جائے ۔

انفاق میں میانہ روی:

جہاں تک انفاق میں میانہ روی کا تعلق ہے تو اسلام نے قرآن  مجید اور سنت کے ذریعے اس بات کی دعوت جا بجا دی ہے،خرچ کرنے میں افراط وتفریط اور بخل سے اسلام نے روکا ہے، پس اسلام انفاق میں میانہ روی یعنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے اور اسراف سے پرہیز کرنے کو مسلمان اقتصادی زندگی میں دینی اخلاق کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا: (وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا)  اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔ (الإسراء ـ 29).

گفتار و رفتار میں میانہ رو:

حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے گفتار و رفتار میں بھی میانہ روی اختیار کرے ، کیونکہ اعتدال کے ساتھ چلنے میں ہیبت اور وقار کا اظہار ہوتا ہے ، اسی طرح گفتگو میں بھی اعتدال سے بات کرنے والے قدر ومنزلت اور اور سننے والے کی جانب سے بہتر شنوائی ہوتی ہے۔ بلند آواز توجہ کو بانٹ دیتی ہے ،کانوں پر بھاری ، اوراعصاب پرگران گزرتی ہے ،اسی لئے اللہ تعالی نے ہمیں رفتار اور گفتار میں اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ،جسے سورہ لقمان میں حضرت لقمان کا اپنے بیٹے کو نصیحت کی شکل میں بیان فرمایا گیا: (وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ)

اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔  (لقمان ـ19)

کھانے پینے میں میانہ روی:

کھانے پینے کے معاملات میں ایک مسلمان کا اعتدال اور میانہ روی مثالی ہونی چاہئے ۔ نہ زیادہ کھانا چاہئے کہ جس سے صحت کےمختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ، جیسے بہت زیادہ موٹاپا اور اس سے متعلق بیماریاں ، اور نہ ہی کھانے کو اس طرح نظر انداز کرے کہ کمزوری اور اس سے مربوط بیماریوں کا شکار ہو ،کھانے پینے کے اعتبار سے اسلام کے دئے ہوئے نظام میں مثالی اعتدال و میانہ روی پائی جاتی ہے ۔جس طرح اللہ تعالی ارشار فرما رہا ہے کہ  (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ) اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔ (الأعراف ـ31)