مشہور ہے کہ دیمو قراطیہ (ڈیمو کریسی )عوام کی عوا م کے ذریعے حکمرانی ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے عوام میں سربراہی کا ماخذ ومصدر عوام ہی ہو۔ اور قابض افراد یا جن کا ارادہ عوام پر فرض کیا جا سکتا ہے ان کی حکومت وسربراہی نہ ہوسکے ۔ ڈیمو کریسی ایسا سیاسی نظام ہے جوآزاد فعالیتوں اور بنیادوں پر استوار ہے۔ کہ جن کےسہارے اس کا مجموعی ڈھانچہ اس طرح تشکیل پاتا ہے۔ کہ جیسے اس کا نظریہ ہے کہ عوام ہی سربراہی کا تنہا مصدر ہوگی اور تمام قانونی قرادادیں عوام ہی سے صادر ہوں گی اور وہی اس حاکم کا انتخاب کریں گے ۔ جو اس نظام کے قوہ تنفیذیہ کا اجراء کنندہ ہوگا ۔ اور اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں ۔انتخابات کے ذریعے عوامی نمائندگان کا چناؤ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ڈیمو کریسی کی فعالیت کی کیفیت کو جاری کرتے ہیں۔ تاکہ عوام ہی قانون ساز ہوسکے۔ اور اسی کے بطن سے ڈیموکریسی ممارست کو اعلی قانون ساز ادارہ یعنی پرلیمان مہیا ہوتا ہے۔ کہ جس کا وظیفہ عوام کے مفادات اور رفاہ عامہ کو یقنی بنانا ہے ۔ اور تمام جاری فعالیتوں کے لیے یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ لہذا کسی بھی معاملہ کے ذمہ دار نمائندہ کا انتخاب اور اس کے امور کی تنظیم اسی طریقہ کار یعنی (انتخابات کے ذریعے ) ہی سے ہوتا ہے ۔تاکہ مطلوبہ ڈیمو کریسی نظام کی ساخت اور سیاست کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکے ۔
جیسا کہ ڈیمو کریسی نظام حاکم اور اس کی منتخب حکومت کی عوام کے ساتھ مخصوص کیفیت کو تاسیس کرتا ہے باایں طور کہ حاکم فقط تنقیذی قوت ہوتا ہے۔ حاکم اور اس کی حکومت پہ فرض ہےکہ پرلیمان سے جاری کردہ قراردادوں کو نافذ کروائے۔ اور جیسا کہ ڈیمو کریسی سسٹم قوۃ قضائیہ کے قوۃ مقننہ اور مجریہ سے الگ ہونے کو یقینی بنانےکا ذمہ دار ہے ۔تاکہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد رہے اور کسی بھی سمت سے اور کسی بھی طرح کے دباؤ سے محفوظ رہ سکے۔ ان امتیازات کے ساتھ کہ جو ڈیمو کریسی سسٹم میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ بشری عقل کی طول تاریخ میں بہتریں دریافت اور نتیجہ ہے خصوصا اس نظرسے کہ سیاسی میدان میں عقل بشری کے طویل اور مسلسل تجربات کا نتیجہ (جمہوریت) ہے۔ نہ صرف سیاسی بلکہ اجتماعی امور اور زندگی کے سبھی پہلؤوں میں تجربات کا نتیجہ ہے۔ لیکن بہر حال یہ ایک انسان ساختہ نظام ہے اس کا انسان ساختہ ہونا اپنے اندر کئی احتمالات کو جنم دیتا ہے جی ہاں بڑے پیمانے پر غلطی اور خطا کے احتمالات کو۔کیونکہ یہ عقل بشر کے انتاجات میں سے ہے اور عقل بھی وہ جو ایسے کئی حالات میں گھری ہوئی ہے ہو جو اس پر خاص زاویہ سے سوچنے پر دباؤ ڈالے ۔ کیا ایسا سیاسی نظام بھی ہوسکتا ہے جس میں غلطی کی گنجائش جمہوری نظام سے کم ازکم ہو اس بارے میں بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا نظام اس عقل کی پیداوار ہوکہ عقل بشری کو ایک مجموعی عاقل کی نظر سے دیکھا جائے تب بھی وہ اس عقل بشرسے زیادہ وسیع تر اور مصلحت آشنا اور عمیق ہواور ظاہری سی بات ہے کہ ایسی عقلانیت تو صرف حکیم وبصیرذات کی عقل ہے۔ کہ جو انسان کے معاملات چلانے کے متعلق مکمل احاطہ اور فھم کامل رکھتا ہے اور وہ عقل فقط خالق انسانیت عزوجل کی عقل ہے۔ اس کیفیت کو جاننے کے لیے کہ اسلام کس طرح لوگوں کے معاملات چلانے کے لیے ایک خاص نظام سیاسی فھم کرتا ہے ۔ ضروری ہے کہ ہم اسلامی قوانین کے نظام کو سمجھیں تاکہ ہم پر یہ کشف(واضح) ہوسکے کہ ان قوانین کی ساخت اور ڈھانچہ ایک ڈیمو کریسی سسٹم فراہم کرتا ہے البتہ وہ جمہوری نظام جو حکومت آسمان کے ساتھ ساز گار ہواور بطور خاص یہ کہ ایسا نظام (جو اسلام ساختہ ہے) صرف دنیا میں لوگوں کے مابین عدل اور سہولیات فراہم کرنے کے مقصد پر اکتفاء نہیں کرتا ۔ بلکہ ان کی اخروی حیات تک کو بہتر بناتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی سے معاملہ ایمان وحیات کا معاملہ ہے ۔ لہذا دین کے ساتھ ہمراہی بڑے اور وسیع تر تناظر میں طے ہوگی ۔ اس نظام کا منشاء ومصدر اس علیم اللہ کا ارادہ ہے جو اپنے بندوں کے معاملات کا مکمل احاطہ رکھتا ہے یہی وجہ بنتا ہے کہ ہم دونوں نظریوں یعنی ڈیمو کریسی اور اسلامی سیاسی نقطہ نظر کے درمیان نقاط اختلاف واتفاق کو بیان کریں۔
موجودہ وضعی نظام میں ڈیموکریسی کا مفہوم اور اسلامی سیاست میں ڈیمو کریسی کے مفہوم میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ دونوں کی اصل اور منشاء میں اختلاف ہے نظام اسلامی میں قوانین اور قردادوں کی تشکیل میں اصل اللہ الحکیم ہے اور اس کے بارے میں انسان کی کوئی مداخلت نہیں ہے کیونکہ کائنات اور انسان کے معاملات کا مکمل احاطہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی ہے جو کائنا ت اور انسان کے امور سے مکمل آگاہ ہے اور کوئی بھی اس کی قانونی شقوں اور آئین کو بدل نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس کے قوانین ان سنن وقواعد کا حصہ ہیں۔ جن میں تحویل وتبدیل ممکن نہیں ہے۔ جب کہ وضعی ڈیمو کریسی سسٹم میں قانون ساز انسان ہے اور کیونکہ انسان کے ہاں کوئی بھی قوانین یا ضوابط ثابت نہیں ہیں۔ لہذا ایک زمانے میں قائم قوانین دوسرے کے لیے ناقابل عمل ہونے کے باعث بدل دیئے جاتے ہیں اور یہی اس نظام کا امتیازی نقطہ ہے اور اس کی وجہ انسان کااپنی اور اپنے سے متعلق کائنات کی ضرورتوں کے بارے علم اور آگاہی کے لحاظ سے ناقص ہونا جو بشری طبیعت کا تکوینی تقاضہ ہے ۔
((یایھاالناس انتم الفقراء ۔۔۔) (سورہ فاطر۔ آیت15)
اے لوگوں تم اللہ کی طرف محتاج ہو۔ اور اللہ ہی ہے جو حمید اور بے نیاز ہے ۔
اسی طرح معاشرےکی فکری اور تمدنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ قوانین وضوابط میں مسلسل تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور اس ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل ان پیچیدگیوں کو جنم دیتے ہیں۔ جن کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نت نئے وضعی قوانین وضوابط تشکیل دیئے جائٰیں ۔ اور دراصل دونوں نظاموں میں یہی اختلاف ہے یعنی قانون کے مقاصد مرجعیت اور اس کی عقدیت کے لحاظ سے۔
قانونی مقاصد:
دونوں نظاموں میں قانونی مقاصد مختلف ہیں ۔اور ہر ایک کاموقف اس کے دنیا اور زندگی کے بارے میں موقف کے حساب سے تشکیل پاتا ہے۔ الہی قوانین اور بطور خاص اسلامی قوانین انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں کے تناظر میں طے ہوتے ہیں یعنی انسان کا اللہ تعالی سے دنیا اور آخرت میں تعلق کو مد نظر رکھا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ دنیا میں صالح اعمال کی طرف الہی ہدایت اخروی جہاں کے لیے مناسب تیاری ہے۔ اور عالم جزاء کو گذشتہ زندگی پر استوار دیکھا جاتاہے اور یہ صد در صد وضعی قوانین کے برخلاف ہے کہ جن کا منشاء انسان ہے اور ان کا ہم وغم فقط دنیاوی سہولیات فراھم کرنا اور آخرت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پس وضعی قوانین کا عالم آخرت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہی ان کے مقاصد کا خلاصہ اور ان کی تفکیر کا لب لباب ہے ۔ لہذا یہ وضعی قوانین وسیع تر مقاصد کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں کہ جیسا آسمانی قوانین اور بطور خاص اسلامی قوانین میں یہ وسعت ہوتی ہے ۔
قانونی مرجعیت :
وضعی ڈیمو کریسی نظاموں میں مرجعیت عوام ہی کی ہوتی ہے۔ اور مطلق شکل میں اور عوام ہی سر براہی کا ماخذ ومصدر ہوتی ہے اور اس سے مافوق کوئی طاقت نہیں ہوتی برخلاف الہی نظاموں اور بطور خاص نظام اسلام میں کہ قانونی مرجعیت اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے۔ جو اس مرجعیت کو قانونیت ، ثبات، تدرج اور ماحول کی لحاظ داری فراہم کرتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ دستور بالا (قرآن کریم) اور اس کو بیان کرنے والے قوانین (عصمت کی سنت)سے شروع ہوکر اجتہادی زینہ تک جاتی ہے جو انہی اولی الامر افراد کو میسر ہوتا ہے۔ جو لوگوں کی مصلحتوں سے واقف ہوں جنہیں اصطلاحا فقہاء کہا جاتا ہے۔ اور وہ فکری، تمدنی اور علمی ارتقائی حرکت کے نتیجے میں متحرک زندگی کے نت نئے معاملات اور امور میں حکم شرعی تلاشنے کے لیے استنباط کرتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ زندگی کے جن پہلوؤں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جو نئی قانون سازی کا باعث بنتی ہے البتہ ان فقہی اجتہادات میں شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ نصوص مقدسہ کے مخالف نہ ہوں لہذا تغیر وتبدل فقط مصادیق میں ہوتا ہے۔ اور جو احکام ان جدید مصادیق سے متعلق ہیں ۔
حاکم اور محکوم میں معاہدہ:
وضعی ڈیمو کریسی نظاموں میں سماجی معاہدہ فقط زندگی تک کا ہوتا ہے یعنی ڈیمو کریسی نظاموں فعالیت کے انتخابی نتائج کی روشنی میں جو معاہدہ منتخب حاکم اور رعایا کے مابین طے پاتا ہے اور اس نظام میں معاہدوں کا یہی خلاصہ ہے کیونکہ بشری ڈیمو کریسی صرف انسان کے حیاتی پہلو تک محدود ہے اور بس۔ اس کے برخلاف الہی قوانین میں اجتماعی معاہدوں کے کیونکہ وہاں معاہدہ دو جہتوں سے ہوتا ہے ۔
1۔ زندگی کا معاہدہ ولی الامر کے ساتھ کہ اس کی فرما برداری کی جائے گی ۔ کیونکہ وہ لوگوں کے مفادات سے زیادہ آگاہ ہے اور خصوصا جب وہ نبی مرسل یا ان کا وصی برحق ہو۔
2۔ دوسرا معاہدہ حکیم مطلق کے ساتھ یعنی اللہ تعالی کے ساتھ عقد ایمان کہ اولوا لامر اس نے اپنی جانب سے بنا کسی بشری مداخلت کے خود مقرر فرمائے ہیں اس لیے دراصل ولی الامر کی بیعت اللہ تعالی کی بیعت ہے ۔ قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں (ان الذین یبایعونک انما یبایعو۔۔ ) (سورہ الفتح ، آیت10
وہ لوگ جو آپ کی بیعت کرتے ہیں انہو ں نے تو بس اللہ ہی کی بیعت کی اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے پس جس نے عہد شکنی کی تو اپنا ہی نقصان کیا اور جس نے اللہ سے باندھے ہوئے عہد کو ایفاء کیا تو اللہ عنقریب اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
ڈیمو کریسی حکومت:
ابھی تک کی بشری ممکنات میں سے بہترین شمار کی جاتی ہے اگرچہ یہ عیوب واشکلات سے مبرا نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ افکار کا نچوڑ ہے اور وہ سیاسی راستے جیسے انسان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے ان میں سے بہتر نظام ہے جو کئی تلخ سیاسی تجربات کے بعد میسر آیا ۔ دشوار ترین مقامات میں ان کے تجربات کے ذریعے ارتقاء تدریجی حاصل ہوا ۔ اور سیاسی کئی نظاموں جیسے آمریت کہ جس کی کئی شکلیں ہیں سے دوچارہوئی جیسے ایک پارٹی کی اجارہ داری، انقلابات کے گروہ، حکومت مخالف انقلابات کے گروہ ، خصوصا ان میں سے زیادہ خونی انقلابات اور وہ انقلابات جنہوں نے انسان کی کئی آزادیوں کو سلب کرلیا۔ اور زندگی کو قہر آور اور ظالمانہ قوانین کے زیر سایہ قراردیا گیا کیونکہ ان کا ایک ہی قاعدہ تھا کہ ڈیکٹیٹر کے حکم کے مقابلے میں کوئی اعتراض قبول نہیں خواہ وہ جو بھی امر کرے ۔ اور وہ عوام سے جیسا بھی برتاؤ کرے وہ اس کا احسان ہے جس پر وہ مستحق شکر ہے۔
خصوصا یہ کہ وہ حاکم ہے جو لوگوں کی ارواح کا امین اور ان کے املاک پر مالک ہے اپنے مطلق قیادتی منصب کے باعث اور انسان کے طویل اور تلخ تجربات کے باوجود عقل بشری کا مصنوع نظام بشر کی موجودہ اور آئندہ متنوع اور متجدد ضروریات کو احاطہ کرنے سے عاجز ہے خواہ وہ جتنا بھی ترقی آور پختہ اور تخلیقی ہو۔ کیونکہ افق عقل محدود ہے کہ جس کے باعث وہ اپنی انفرادی اور اس حیات سے مربوط مسائل سے زیادہ نہیں سوچ سکتی ۔ اسی وجہ سے عقل کی ناتوان طبعی ساخت کے باعث اس کا دیا ہوا سیاسی نظام بھی قاصر ہے ۔برخلاف اس اسلامی ڈیمو کریسی سسٹم کے جسے اسلام نے فھم کیا ہے کہ جس کا مصدر قرآن کریم ہے اور وہ اللہ تعالی کاکلام ہے اور کتنا بہترین کلام ہے ۔ (الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک۔۔) سورہ زمر،آیت 18)
جولوگ بات سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین کی اتباع کرتے ہیں وہی ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور وہی صاحبان عقل ہیں۔ اور وہ سنت نبویہ مطہرہ جو قرآن کی تفسیر کرتی ہے (انزلنا الیک الذکر ۔۔۔) (سورہ نحل 44)
ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ اس کی تبیین کریں جو ان کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ اور شائد کہ وہ سوچنے لگیں ۔ اور یہ ڈیمو کریسی اسلامی اپنے نظام کی ساخت میں قرآن وسنت پر اعتماد کرتی ہے اور ان طریقہ کا رپر جو ان دو مقدس مصادر پر موقوف ہیں جو کہ دراصل الہی انتخاب پر موقوف ہیں ۔ جسے اللہ نے تمام زمانوں میں حکومت کرنے کے لیئے خطوط عریضہ تراشے ہیں ۔ اور خصوصا اس لیے کہ وہ نظام ان ثابت قوانین کے زیر سایہ ہے جنہیں نافذ کرنے کا پابند حاکم ہوتا ہے ۔کیونکہ وہ عادل قانون ساز کی جانب سے ہیں ۔ (الیس اللہ باحکم الحاکمین ۔۔،)(سورہ تین: 8)
آیا اللہ بہترین حکم کرنے والا نہیں ہے حکم کرنے والوں میں سے ۔
نظام بیعت وشوریٰ در اسلام :
چونکہ اللہ العلی القدیر نے زمین پر بعد از نبی اکرمؐ اپنے خلفاء کو چنا ہے اور انہی امور مسلمین پر اولیاء مقرر فرمایا ہے اور اپنی اطاعت کے طول میں ان کی اطاعت کا امر صادر فرمایا اور ان کی اطاعت کو اپنے رسول اور اپنی اطاعت کے ساتھ متصل فرمایا ۔ نہ کوئی بیعت درست تھی اور نہ ہوگی سوائے ان کی بیعت کے۔ البتہ وہ جس نے جھوٹ اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو امور مسلمین پر ولایت کی صفت سے متصف کیا وہ بد ترین جھوٹا ہے اور ہوس ریاست کا لالچی ہے۔ اسلام اور اس کے اوامر سے کہیں دور اور امر الہی کے عصیان کے ذریعہ طاعت پروردگار سے باہر ہے۔ (یایھاالذین آمنوا اطیعوااللہ واطیعوا۔۔۔)(نساء ، 59) اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اوراطاعت کرو رسول اکرمؐ اور اولی الامر کی ۔۔ لہذا کسی اور کی ولایت امر مسلمین کی بنیاد پر بیعت درست نہیں ہے نہ فقط یہ بلکہ وہ اس کے ذریعے گناہ گاروں میں شمار ہوگا۔ تمام گذشتہ باتوں کی وجہ سے ہی بیعت صرف اسی کی درست ہے جنہیں اللہ تعالی نے انتخاب فرمایا اور ان کی اطاعت کا حکم فرمایا ۔ اور وہ اہل بیت النبوۃ میں سے آئمہ الھدی اطھار ہیں جن کی بیعت کا رسول اکرمؐ نے کئی بار حکم فرمایا اور کئی مختلف مناسبتوں پر جیسا کہ حدیث ثقلین میں فرمایا : (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ۔۔)میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک کتاب اللہ اور دوسرا میری عترت جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو سکو گے ۔ میرے بعد کبھی بھی ۔ اور باتحقیق لطیف وخبیر ذات نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر میں میرے پاس لوٹ آئیں ۔ اور اسی طرح فرمایا (الائمہ من بعدی اثنا عشر کلھم من قریش۔۔۔)میرے بعد تمہارے بارہ امام ہیں اور وہ سب قبیلہ قریش سے ہیں اور یہ واضح اشارہ ہے کہ نبی اکرم ؐ کے اہل بیتؑ کرام ائمہ ھدیٰ ہی امور مسلمین کے ولی ہیں۔ حدیث ثقلین کے ذریعے اور اسی طرح گذشتہ حدیث میں موجود عدد کی دلیل سے کہ 12 امام کسی کے ہاں پورے نہیں ہوئے۔ مگر فقط آئمہ ھدیٰ ؑ ہی ہیں جو بارہ ہیں۔
جہاں تک شوری کے مبدا کا تعلق ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کے مقاصد کے برخلاف استعمال کیا ہے وہ اساسا ولی امر یعنی حاکم کو انتخاب کرنے سے اجنبی ہے کیونکہ انتخاب ولی اللہ تعالی کی ذاتی ذمہ داری ہے بلکہ شوری کی بابت حکم یہ ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں سے یہ چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کے معاملات جیسے امن ، جنگ روزمرہ کے معمولات کو چلانے اور باقی دیگر پہلوؤں میں باہمی مشاورت سے کام لیا کرو۔