دین اسلام میں دنیا و آخرت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ اسلام ایسا دین ہے جو انسان کی ساری زندگی پر وسعت رکھتا ہے اور اس کے تمام معاملات پر محیط ہے۔ جس کے اندر سیاست بھی آجاتی ہے اور انسان کی زندگی کے انسانی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی سارے پہلو اسلام کی تعلیمات کے دائرے میں داخل ہی ہیں۔ اس لئے کہ دین یعنی ایک آسمانی دین کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے رہنما اصول دے اسی طرح سے یہ بھی دین ہی کا کام ہے کہ انسانوں کو ان کے پروردگار کی جانب سے عاید ذمہ داریوں سے عہدہ براٗ ہونے کی تعلیم دے اس کے علاوہ خود انسانوں کے آپس میں بھی تعلقات کے اصول بیان کرے نیز یہ بھی دین ہی کا کام ہے کہ انسان کی انفرادی زندگی کو بھی منظم کرنے کا طریقہ سکھائے۔ پس اسلام کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی ہے کہ وہ انسانوں کے اجتماعی سماجی امور کو منظم کرے خاص طور پر سیاسی میدان میں ۔کیونکہ سیاست میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی کو منظم کیا جاسکتا ہے۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات میں سے ایک سیاسی امور میں اسلام کی دخالت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی حکومتی حیثیت کیونکہ لوگوں کی زندگی کے ساتھ اس پہلو کا زیادہ واسطہ ہے جس میں لوگوں کے معاشی، اقتصادی، معاشرتی سارے پہلو داخل ہوتے ہیں مختصر یہ کہ اسلام کی سیاست لوگوں کی انفرادی و اخلاقی سب معاملات میں دخالت رکھتی ہے اسلام کا اس طرح انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو میں دخالت رکھنا اس کے ایک کامل دین ہونے کا واضح اور روشن ثبوت ہے اور انسان کے تمام امور میں نرمی و تحمل کے بہتریں اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ اس کے عظیم سرچشمہ سے صادر ہونے کی نشانی بھی ہے۔ غرض یہ کہ اسلام صرف ایک روحانی، اخلاقی یا معنوی سیر و سلوک کی ہدایات کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ اسلام ایک کامل ہدایت کا نطام ہے جس کے اندر انسانی زندگی کے تمام پہلووں کے حوالے سے تعلیمات موجود ہیں ۔ جس میں سیاست کا پہلو بھی داخل ہے نیز اسلام میں حکومت تشکیل دینے کے اصول و قواعد بھی موجود ہیں، بہتریں نظام کے تحت معاشرے کو تشکیل دینے کی ہدایات بھی موجود ہیں اور بہترین سیاسی حکومتی نظام قائم کرنے کی حکمت آمیز تعلیمات بھی مرقوم ہیں۔
قرآن کریم جو اسلام کا عالی ترین دستور کا حامل ہے اس میں امت کے سیاسی امور کے حوالے سے بہتریں راہنما اصول موجود ہیں۔ قرآن کریم امت کو ایک عدل و انصاف پر مبنی حکومت کی تشکیل کی خوشخبری دیتا ہے، نا صرف خوشخبری دیتا ہے بلکہ سیاسی نظریہ اور خد وخال معین کرنے کے بعد عملی طور پر ان اصولوں کو نافذ کرنے اور شرعی لحاظ سے ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم بھی دیتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے "
(( ... أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ))(سورة النساء ـ 59)
ترجمہ: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور تم میں سے جو اولوالامر ہے اس کی اطاعت کرو۔ " قرآن کریم کی ان نصوص میں سے بعض اسی حکومت کے اداروں کی تنظیم اور اس کے متعلق پالیسیوں کو ہی بیان کرتی ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
((وكذلك جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ... ))(سورة البقرة ـ 143)
اور ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں ۔'' ایسے ہی اسلام نے اقتصادی امور کے حوالے سے ہدایات دی ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے :
(وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي القربى))(سورة الأنفال ـ 41)
ترجمہ: اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہواس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول ، رسول کے قرابتدار کے لئے ہے۔ نیز مزید ارشاد ہوا "
((إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ...))(سورة التوبة ـ 60)
"صدقات و خیرات بس فقراء ، مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضدارون کے لئے اور راہ خدا میں اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے ہمارے موجودہ زمانے کے لئے کہ جب معصوم معاشرے میں موجود نہیں ان کی حکومت کی ایک قائم مقام سیاسی حکومتی نظام کا دستور بھی دیا ہے ۔ جس کی بنیاد شوری اور مشاورت پر ہو۔ اسی نکتے کا ذکر قرآن کریم کی آیت میں یوں ہوتا ہے :
((فَبِما رَحْمَة مِّنَ اللهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظَّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِر لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ في الاْمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ))(سورة آل عمران ـ 159)
ترجمہ: پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو ۔ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے"۔ اسی طرح ایک آیت میں تو اس مشورہ کو ایک بنیادی اعتبار و اہمیت دیتے ہوئے قصے کے ضمن میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے ملکہ سباء کے اپنے دربار والوں سے مشورہ کرنے کے واقعے کو بیان کیا اور ارشاد فرمایا :
((قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ))(سورة انمل ـ 32).
ترجمہ: اس عورت نے کہا، اے زعماء مملکت میرے مسئلے میں رائے دو کہ تمہاری رائے کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتی۔" ان تمام نکات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلامی احکام سیاسی نمونوں سے خالی نہیں ہے ۔البتہ یہ یاد رہے کہ اسلام کی سیاست دور حاضر کی رائج سیاست سے بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ دنیا کی رائج سیاست ایک فن ہے تدبیر امور نہیں، سیاسی دھوکہ بازیاں ہیں انسانی خدمت کا پہلو نہیں۔ جبکہ اسلام میں سیاست کی بنیاد عوام کی مصلحتوں کو مد رکھ کر رکھی گئی ہے۔ لہذا اسلام میں سیاست کا آغاز ہی شفافیت سے ہی ہوتا ہے۔ اسلام میں زور و غلبہ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کی کوئی گنجائیش نہیں ۔جیسا کہ آج کے دور میں عالمی سیاسی نظام کی بنیاد ہی اسی پر ہے۔ اقوام پر اپنے زور ،دھونس دھمکی کے ذریعے طاقتور ممالک نے اپنا تسط جمایا ہے ۔ اس طرح کی سیاست کو اسلام بالکل مسترد کرتا ہے۔ اسلامی سیاست کا ایک طرہ امتیاز اس کا سیاست میں بھی اخلاقی پہلو ہے جس کی وجہ سے اسلام اس میدان میں بھی ممتاز ہوجاتا ہے۔
لیکن اسلام کے نام پر وہ سیاست جو اسلام اور عوام کی مصلحتوں کے خلاف وجود میں آئی جس میں افراد کے اپنے ذاتی مفادات تھے کہ ہم اسے "سیاسی اسلام " کا نام دیں گے ۔یہ وہ سیاست ہے جس کے رائج کرنے والوں نے اسلام کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور اپنے ذاتی پست مفادات کے حصول کے لئے اپنے درباری واعظوں اور ملاؤں اور منابر کو بھی استعمال کیا ،جھوٹ و فریب سے خوب کام لیا یوں اسلام کا ایک ایسا چہرہ پیش کیا جس میں اسلام کا نام تو تھا لیکن اصلی تعلیمات اور اس کا حقیقی چہرہ غائب تھا۔ ان کی زبانوں میں اسلام کا نام تو جاری تھا لیکن وہ چیز جو ان کے دربار و سیاست اور کردار میں اسلام کی بو تک نہیں آتی تھی ۔ زبان اسلام کے نام پر کھلتی تھی البتہ اپنے شخصی مفاد کے حصول کے لئے۔ اس طرح ایک ایسا دور بھی آیا جس میں معاویہ بن ابی سفیان اور اس کے بعد اس کا بیٹاا یزید ملعون بھی اسلام کے نام پر تخت اقتدار پر نشے کے ناچ شروع کرنے لگا کہ ان کرداروں کا اسلام ناب محمدی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ یہ دونوں اسلام کے نام پر منفی سیاسی رویے ہیں جس کو مکر و فریب والا سیاسی اسلام کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے لوگوں پر اسلام کے نام سے ہی سرداری کی جبکہ لوگ ان سے بیزار تھے۔ منبر رسول خدا ﷺ پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے اسلام کا مظاہرہ کیا تاکہ ان کی اپنی خواہشات کی پیاس بجھ سکے اور اس طرح وہ لوگوں پر اپنا تسلط قائم کر سکیں ان کی معیشت اور تقدیر پر اپنا قبضہ جما سکیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس کو لے کر اس طرح کے صاحبان اقتدار دین ناب اور علوم الہی کے واقعی مراکز یعنی ائمہ ھدی کہ جن کا سلسلہ امام علی علیہ السلام سے شروع اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد آپ کے دونوں فرزند حسن و حسین علیھما السلام ہیں، ان ہادیوں کے ساتھ جنگ و جدال کے لئے کھڑے ہوئے تاکہ اپنے پست و باطل مفادات و خواہشات کے حصول کی راہ سے ہر قسم کی مزاحمتی طاقتوں کو ہٹا سکیں۔ چنانچہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کے ساتھ امیر شام کی صلح کا معاہدہ طے پانے کے بعد اس نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے فقط حکومت واقتدار کو حاصل کرنے کی غرض سے ساری طاقت صرف کی ہے۔ اسلام کی تعلیمات و احکام کے اجرا و نفاذ اس کا مقصد نہیں۔ چنانچہ تاریخ میں اس کے حوالے سے یہ جملہ نقل ہوا ہے :" إِنِّي واللَّهِ مَا قَاتَلْتُكُمْ لِتُصَلُّوا وَ لَا لِتَصُومُوا وَ لَا لِتَحِجُّوا وَ لَا لِتُزَكُّوا، إِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ ذَلِكَ، وَ لَكِنِّي قَاتَلْتُكُمْ لِأَتَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ، وَ قَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ ذَلِكَ وَ أَنْتُمْ لَهُ كَارِهُونَ، أَلَا وَ إِنِّي كُنْتُ مَنَّيْتُ الْحَسَنَ وَ أَعْطَيْتُهُ أَشْيَاءَ وَ جَمِيعُهَا تَحْتَ قَدَمَيَّ لَا أَفِي بِشَيْءٍ مِنْهَا لَه ".
ترجمہ: بتحقیق خدا کی قسم میں نے تم سے جنگ اس لئے نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھو، یا تم روزہ رکھو ،حج کرو اور زکات ادا کرو۔ یہ کام تو تم کیا کرتے ہو میں نے تم سے مقاتلہ تو اس لئے کیا ہے کہ تم پر حکومت کروں اور یہ تو اللہ نے مجھے دیدیا ۔ درحالیکہ تم کو یہ پسند نہیں تھا ۔ تم آگاہ رہو کہ میں نے حسن کے ساتھ کچھ معاہدہ کیا ہے اور ان کو کچھ لکھ کر دیدیا ہے۔ میں اس سب کو ابھی ہی اپنے پاؤں تلے روند ڈالتا ہوں۔ان میں سے کسی چیز کو بھی پورا نہیں کروں گا۔
ایسا ہی کچھ یزید لعین نےکیا ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے لئے ہزاروں کا لشکر عراق روانہ کیا جس نے سر زمین کربلا میں آکر مجسم اسلام کو دشت بلا کے اندر خون میں غلطاں کردیا اور اس طرح سے اسلام اصلی اصلاحی کو مٹانے کی ناکام کوشش کی۔