وہ کلمات جن کے ادا کرنے سے ایک شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے، ان کلمات کو "شہادتیں" کہتے ہیں۔ یہ دوحصوں پر مشتمل ہیں، ان کا ایک حصہ دوسرے کے بغیر نامکمل اور ناتمام ہے۔ پہلا حصہ برائت پر مشتمل ہے جو"لا إله " یعنی کوئی معبود نہیں، جبکہ دوسرا " ولایت ، محبت اور اقرار پر مشتمل ہے وہ ہے "إلا الله" یعنی "خدا کے سوا کوئی معبود نہیں" جس میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام اس فلسفے پر قائم ہے، کہ خدا اور اس کے ولیوں کے ساتھ رہنا اور ان کے دشمنوں سے برائت کرنا ہے۔ پس محبت کی دیوار کو قائم کرنے کے لئے سب سے پہلے غیر مربوط چیزوں کو منہدم کرنےکی ضرورت ہے۔ جس طرح یہاں "لاالہ" سے تمام معبودوں کی نفی کردی پھر الا اللہ کے اقرار سے توحید کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔
پس ولایت یا سرپرستی کا مطلب دل میں خدا اور اولیاء اللہ سے محبت اور عملی طور پر اس کا اظہار کرنا ہے، جبکہ تبریٰ کا مطلب دل اور عمل سے خدا اور اولیائے خدا کے دشمنوں سے دوری اختیار کرنا ہے۔
یہاں پر ایک اور خاص معنی بھی ہے وہ یہ ہے کہ تولا و تبریٰ سے مراد: اہل بیت علیھم السلام کی ولایت کا اقرار اور ان کے دشمنوں سے اظہار لاتعلقی اور برائت کرنا۔ جیساکہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " الاعتقادات في دين الإمامية" میں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "اللہ ، رسول اور ائمہ طاہرین کا اقرار اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا ہے جب تک ان کے دشمنوں سے برائت نہ کرے"