- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہنما
1 شعبان 1440هـ

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی رسول اور نبی ہونے کے ناطے بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ آپ دین الٰہی کو بیان کریں اور قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر کریں۔ سنت شریفہ حقیقت میں قرآن کی تشریح، تفصیل اور تفسیر ہی کو کہا جاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نبی ہونا لوگوں کو اپنی ضروریات دینی اور دنیوی کے سلسلے میں آپ کی طرف مراجعہ کرنے میں مانع نہ تھا، کیونکہ دونوں جہانوں کی سعادتوں کا حصول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر منحصر تھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صفات حسنہ اور فضائل وکمالات انسانی میں اتم ہونا سبب بنا کہ لوگ اپنی زندگی کے اختلافی مسائل اور مشکلات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمونہ قرار دیکر آپ کی سیرت طیبہ سے مسفید ہوں۔ اور آپ کی یہ مقبولیت اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو بنی نوع انسان کی ہدایت کا سرچشمہ قرار دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو سب سے زیادہ افضل اور بہتر قرار دینے کی وجہ سے ہوئی۔

 اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ہیں۔حسن اخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔ حسن اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھائے ہوئے دلوں میں امید ،عزم ، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اخلاق و کردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اخلاق کریمانہ سے پوری دنیا کو فتح کرلیا، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلاق حسنہ، اور معاشرتی و  انسانی اقدار کے حامل ہونے کے حوالے سے بے مثل تھے، اور آج کی اصطلاح میں  اس صفت کو  فطری  اور موروثی صلاحیت اور استعداد بھی کہا جاتا ہے جو کسی بھی اقدار اور اخلاق کے قبول کرنے کے لیے ہونا ضروری ہوتی ہے۔ ان صفات کے علاوہ بہت سی دیگر صفات  محمودہ اور اعلی  امتیازی خصوصیات میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی انسانوں سے جدا تھے۔پس انہی اعلیٰ صفات اور کمالات کی وجہ سے ہی  نبی اکرم  حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے منتخب فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت  کو اپنی اطاعت قرار دیا؛ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:  مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا (النساء:۸۰)۔  جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ۔

 اطاعت، خوشدلی کے ساتھ تابعداری کرنے کو کہتے ہیں ۔ طَاعَۃٌ کے مقابلہ میں كُرْہٌ آتا ہے۔ جس کے معنی ناگواری اور کراہت کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ لہٰذا اطاعت وہ ہے جو کسی جبر و قہر کے بغیر رسولؐ کی محبت کی وجہ سے انجام دی جائے۔ رسولؐ سے محبت اس وقت ہو گی جب ان کے سارے فرامین کو اللہ کی طرف سے مان لیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تواس وقت رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔  اور جو بھی کہتے ہیں وہ حکم خدا  سے ہی کہتےہیں اپنی طرف نہیں کہتے؛جیسا کہ قرآن کہتا ہے:  وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی، اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (النجم:۳، ۴) وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔

چونکہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ کے آخری نبی، اور تمام گزشتہ انبیاٗ علیھم السلام کی صفات کے مالک تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات، تمام انبیا کرام علیھم السلام کی تبلیغات وتعلیمات کا ما حصل اور نچوڑ تھیں،اور آپ کی لائی ہوئی شریعت  قیامت تک کے لیے تھی، لہذا اس شریعت پر عمل پیرا ہونا قیامت تک تمام انسانوں کے لیے سعادت الدارین کی ضمانت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  اسلامی معاشرہ میں ایک ایسا عادلانہ اور منصفانہ نظام  نافذ کیا، جس کی بنیاد قرآن حکیم کی الٰہی تعلیمات تھیں ، اور آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام عالمین کے لیے بشیر اور نذیر تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے روئے زمین پر ایک ایسی الٰہی اور حکیمانہ حکومت قائم کی، جو عام انسانوں کی طرف سے بنائی  گئی حکومتوں سے یکسر مختلف تھی، اور جس کے قائد ، سربراہ اور مسول اپنے  کردار، رفتار، گفتار میں وحی الٰہی کے تابع تھے، اور جن کے بیان کردہ احکام من جانب اللہ ہوتے تھے۔ چنانچہ ایسی قیادت اور رہبری دنیا اور آخرت دونوں میں انسانوں کے لیے یکسان  مفید تھی۔

نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے معاشرہ  کی اسی نہج پر تربیت شروع کی جس نہج پر پروردگار عالم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کی تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تربیت کا آغا ویسی ہی ز علم وآگاہی سے کیا، جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تربیت علم اور آگاہی سے ہوئی تھی، آپ نے معاشرہ  کوسیاسی، اقتصادی، مالی، معاشی، عسکری، فکری اور علمی اعتبار سے تربیت کی اس سطح پر پہنچایا  کہ وہ معاشرہ مختصرسےعرصہ میں جہالت، تعصب، توہمات اور خونخواری سے نکل کر ایک ایسے تعلیم یافتہ، پر امن، حقیقت پسند مہذب اور متمدن معاشرہ میں بدل گیا، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تمام تر سعادتیں اور کامیابیاں  اس لیے ممکن ہوئیں کہ تمام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمائندہ الٰہی سمجھتے تھے، جو عصمت کی منزلت پر فائز تھے، اور تمام تر ممکنہ انسانی غلطیوں اور لغزشوں سے مبرا اور پاک تھے، جن کی طرف سے بیان ہونے والے احکامات اور ہدایات حقائق پر مبنی تھے، جن کی اطاعت کو اللہ تعالی  نے سب پر فرض کیا ہوا تھا، اور جن کو خدا وند متعال نے تمام مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ تصرف کا حق دیا ہوا تھا، اور دین کے معاملات میں مورد اعتماد قرار دیا ہوا تھا پس کیونکہ آپ دینی مسائل میں مرکز شمار ہوتے تھے، اسی لیئے دنیاوی امور اور جزئیات میں بھی  بطریق اولی سب کے لیے مورد اعتماد تھے۔ 

افضلیت اپنے آپ کو منواتی ہے

اللہ تعالیٰ کا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو منتخب کرنا اور انہیں اپنے آخری نمائندے کے طور پر چننا بغیر کسی ملاک ومعیار کے نہ تھا، بلکہ یہ اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی تمام انسانوں سے حسب ونسب، فہم وفراست، فضیلت وپرہیزگاری، کردار ورفتاراور علمیت کے اعتبار سے جدا اور اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لائق تھے کہ ہدایت اور زعامتِ بشری کے لیے نمائندہ الٰہی بن جائیں  اور آپ کے ذریعے انسانوں کو مقصدِتخلیق کی طرف لے جایا جائے۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے افضل تھے تو ایسی افضل شخصیت کے ہوتے ہوئے یہ عقلا درست نہیں ہے کہ مفضول اور فاضل  کو افضل پر اور کامل کو کامل تر پر مقدم کرے وگرنہ  اللہ تعالیٰ کی حجت لوگوں پر مکمل اور تام نہیں ہوگی۔ خاص طور پر اگر لوگوں  کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمائندہ الٰہی کے طور پر قبول کرنا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ فضیلت اور اولویت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جیسا  کوئی نہیں تھا۔ اگر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے منتخب نہ ہوتے تو عام لوگوں میں یہ تو  صلاحیت اور قوت موجود ہی نہیں  تھی کہ وہ افضل کو فاضل  سے اور اکمل کو کامل سے جدا کریں، کیونکہ  اس کے لیے   خصوصی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ جب کہ تمام صاحبانِ عقل وفہم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسے شخص کو تقدم حاصل ہونا چاہیے جو کمالات اور صفات انسانی کے لحاظ سے دوسروں سے افضل ہو۔ پس یہ بشر کے لیے لطف وکرم  الٰہی تھا کہ نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتخب کیا جو تمام تر  فضائل اور کمالات میں باقی تمام سے ممتاز اور جدا تھے۔

اگرچہ ان صفات میں سے بعض رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ  کسی اور شخص بھی ہوسکتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ وہ صفات صرف اور صرف  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات گرامی ہی میں ہوں۔بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا شخص ان صلاحیتوں کا حامل اور مالک ہوجو مسلم معاشرہ کی اقتصادی، مالی، سیاسی اور اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں، حتی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص  دینی امور کے معامالات میں لوگوں کی رہنمائی بھی کرے، لیکن ان تمام اوصاف کے باوجود وہ اس چیز کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی لوگوں کو تمام ترغلطیوں، لغزشوں، شخصیت پرستی اور انا پرستی سے بچا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ضمانت وہی ذات اور ہستی فراہم کرسکتی ہے کہ جس کو خدا نے تمام تر غلطیوں، اشتباہات، اور لغزشوں سے معصوم بناکر خلق کیا  ہواہے اوروہ ذات، حضوراکرم حضرت محمد مصطفیٰ کی ذات گرامی ہے کہ جن کو اللہ نے نبی بنا کر عصمت کی منزلت پر فائز کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ایسی خصوصیات عطا کی تھیں، کہ جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاکردہ منصب کی حفاظت کرتی ہیں، اور انہی خصوصیات کی وجہ سے لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں پراعتماد کرتے تھے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے۔

انہیں کمالات، خصوصیات اور فضائل کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایک سے زیادہ ایسے مناصب موجود تھے جو کسی دنیوی بادشاہ کے پاس موجود نہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لوگوں میں اس قدر مقبول ہوئے کہ لوگ  بلاچوں چرا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں پر عمل کرتے تھے یقینا آپ ایک طرف تو معصوم نبی تھے، جبکہ دوسری طرف قرآن کے کلی دستورات، جزیئات ، اصول ، اور مبادئ قرآن  کے شارح، اور اس کی عملی تفسیر بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقوق الناس، اور ان کے واجبات کی بہت زیادہ پاسداری کیا کرتے تھے، بے شک آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سیرت جسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ہے لوگوں کے لیے نمونہ عمل تھی۔