- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


عدل
27 جمادى الاخير 1440هـ

عدل: لغت میں افراط تفریط سے ہٹ کر درمیانی راستے کو کہتے ہیں اس کے مقابلے میں ظلم ہے۔دو جھگڑا کرنے والوں کے درمیان عدل یہ ہے کہ انصاف کیا جائے اور ظلم سے دور رہا جائے۔اصطلاح میں اللہ تعالی کو ہر قبیح کام سے پاک ماننا کہ وہ کسی صورت میں قبیح کو انجام نہیں دیتا ۔اللہ تعالی ہمیشہ عدل کرتا ہے۔عدل کا معنی یہ ہے کہ امور کو ان کی جگہ اور وقت پر جاری کرنا اور اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی نہ کرنا اور نہ ہی پہلے انجام دینا اور نہ ہی تاخیر کرنا،اسی طرح ہمیشہ حق کے راستے پر ہی رہنا،جن باتوں سے دین نے منع کیا ہے ان سے رکے رہنا،عدل کو زمین پر اللہ کا میزان بھی نام دیا گیا ہے جس میں اللہ مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلاتا ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ((إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ)) (النحل -90)

بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو۔

نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: (بالعدل قامت السموات والارض)، عدل کے ذریعے ہی آسمان و زمین قائم ہیں۔ اگر اس فرمان پر غور کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہاں عدل سے مراد حکمت ہے اور اللہ تعالی حکیم ہے  جو تمام کاموں کو اسی طرح انجام دیتا ہے جیسے انجام دیے جانے چاہیں۔

حضرت علیؑ کا فرمان ہے: "جعل الله العدل ميزانا يلزم الجميع بأداء ما عليهم، واستيفاء ما لهم، دون تَعًدٍ ولا إفراط ولا تفريط، وقد رفع الله جل جلاله شأن العدل، وجعله من أسمائه واتخذه من صفاته".

اللہ تعالی نے عدل کو میزان قرار دیا ہے اور ضروری قرار دیا ہے کہ ہر کوئی جو اس پر واجب ہی اسے ادا کرے اور جو اسے لینا ہے وہ لے لے ،اس نے عدل کیا اور کسی قسم کی افراط و تفریط نہیں کی ۔اللہ نے عدل کی شان کو بلند کیا ہے اور اس کو اپنےناموں میں سے ایک نام اور  صفات میں سے ایک صفت قرار دیا ہے۔

مساوات  کا معنی عدل نہیں جب اللہ کو عال کہا جاتا ہے تو وہ دو معنی میں عادل ہے ۔

۱۔ہر کام کو اس کے مطابق انجام دیتا ہے کیونکہ وہ حکمت والا ہے اور حکمت والا کبھی بھی کسی چیز کو ایسی جگہ نہیں رکھتا جو اس کا مقام نہ ہو۔

۲۔اللہ تعالی عال ہے،ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتا ہے وہ تمام کو برابر نہیں دیتا اور برابر دینا عدل نہیں ہوتا کیونکہ انفرادی طور پر لوگوں کے درمیان فرق موجود ہوتا ہے جو ان کو عطا کرنے میں اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ جس طرح ولوگوں سے وصول کرنے میں مساوات ممکن نہیں اسی طرح ان کو دینے میں بھی مساوات ممکن نہیں ہے۔