- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام کا اخلاقی نظام
27 ربيع الاول 1442هـ

اخلاق کو اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شریعت اسلامی میں اس کی گہری بنیادیں موجود ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا اخلاق تمام آسمانی ادیان میں جزلاینفک کے طورپر موجود ہے اور ان کے عقائد کا حصہ ہےجیسے یہودیت اور مسیحیت کا حصہ ہے۔یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین اور اخلاق میں سے پہلے کون ہے؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں انسانی  تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا پڑے گا بالخصوص ہمیں انسانی معاشرے میں شریعت کے آنے سے پہلے کے دور کو دیکھنا پڑے گا جہاں معاشرتی افرا تفری اور انسانی اضطراب نے انسانی معاشرے پر گہرے اثرات مترتب کیے۔اس افراتفری نے انسان کو جنگلی زندگی کی طرف دھکیل دیا۔اگر ہم نبی اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے کے جزیرہ عرب کو دیکھ لیں کہ یہاں کا معاشرہ کیسا تھا؟ اور یہاں کے لوگ کیسے زندگی بسر کر رہے تھے؟ تو کافی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ جنگوں اور اجتماعی فساد سےشروع کریں اور بچیوں کو زندہ درگور کرنے تک آجائیں ہر طرف افرا تفری تھی۔ یہ معاشرتی بگاڑ جو شر مطلق تھا وہی اس معاشرے میں قانون بن چکا تھا۔یہاں ہمیں حق و سچ اور انصاف کی طرف بلاتی صرف چند انفرادی آوازیں نظر آتی ہیں اور ان بھلائی کی آوازوں کے مددگار انتہائی کم تھے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بالکل ختم ہو گئے تھے۔وہ لوگ جو دین حنیف پر قائم تھے انہوں نے اس جاہلیت کی ضلالت و گمراہی پر مشتمل زندگی سے کنارہ کشی کر لی تھی اور وہ اجتماعی زندگی کے تمام امور سے لا تعلق ہو گئے تھے۔اکثریت اس فطرہ سلیمہ سے ہٹ چکی تھی اور لوگ جو گمراہی اور ضلالت سے بھرے معاشرے میں حق پر تھے،اللہ نے قرآن مجید میں اس فطرت کا تذکرہ کیا اور فرماتا ہے:

فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ(سورہ روم  ۳۰)

اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

ان لوگوں نے اس فطرت کو جو امن و سلامتی کی داعی تھی تبدیل کر لیا اور خود کو ایسے رنگ میں رنگ لیا جو شر پسندی کا رنت ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ (سورۃ البقرہ  ۱۳۸)

خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں۔

جب کسی بھی طرح سے انسانی معاشرے پر انحراف غالب آگیا  تو یہ ضروری تھا کہ آسمانی اخلاق کا پیغام لیے ایک وحی آتی تاکہ لوگوں کے اخلاق کو درست کرتی اور ولوگوں کو فطری اخلاق کی طرف پلٹا دیتی اور انسانوں کی رہنمائی کرتی کہ وہ کسی دوسرے انسان کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالیں۔ان آسمانوں نصیحتوں کے نتیجے میں وہ الہی اخلاق قائم ہو جائے جو پوری دنیا کے لیے نمونہ ہو۔انسانی شریعت کا کم از کم مقصد یہ ہے کہ  مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں انسانی ضروریات  کو پورا کیا جائے۔شریعت کا یہ سفر حاجات  کی تکمیل سے تحسینیات کے حصول تک پہنچتا ہے جہان سے اس دنیا میں انسانی کمال کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

ضروریات وہ امور ہیں جن پر انسان کے دینی اور دنیاوی مفادات کا انحصار ہوتاہے اور اگر یہ امور نہیں ہوں گے تو وہ مصالح پورے نہیں ہو سکتے اور یہ مصالح جو ضروریات کہلاتے ہیں  دین کی حفاظت،جان کی حفاظت،نسل کی حفاظت،مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت پر مشتمل ہیں۔

جب انسان کی وہ تمام ضروریات پوری ہو جاتی ہیں جن کا وہ اپنی زندگی میں وہ محتاج ہوتا ہے، جن کا نہ ہونا اس کے لیے مشقت،مشکل،تنگی اور ناقابل تحمل اذیت کا باعث بن سکتا ہے جیسے کھانے،پینے،پہننے،رہنے  کے وسائل میسر آجاتے ہیں کہ جن کا نہ ہونا انسان کو مشکل میں ڈال سکتا تھا یہی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں جو ہر انسان کو ملنی چاہیں۔

جہاں تک تحسینات کی بات ہے تو ان کے ذریعے انسانی زندگی کو خوبصورت بنایا جاتا ہے ایسے محاسن جو انسان کی عادات سے میل کھاتے ہیں اور ایسی عادات جو تکلیف دہ ہوتی ہیں ان سے پرہیز کرنا ہے۔

ہم  اسلام کو گہرائی سے مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام نے ہر اس انسان کو جو اسلام سے اپنا ناطہ بتاتا ہے کو اچھے اخلا ق سے جوڑا ہے۔اخلاق کی مثال اسلام کے لیے جسم و روح کی ہے اسلام جسم ہے اور اس کی روح اخلاق ہے۔اسلامی اخلاقیات اور شریعت اسلامی میں علیحدگی کرنا ممکن نہیں ہےیہ دونوں ایک چیز ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اسلام انسانی زندگی کو ایسے قوانین سے منظم کرتا ہےجن کے ذریعے انسان کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے اور اس کی تحسینیات و کمالات کے حصول میں مدد ملتی ہے۔