اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿٦﴾وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿٧﴾ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾(سورہ النحل ۵۔۸)
اور اس نے مویشیوں کو پیدا کیا جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق بھی ہے اور جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور صبح کو چرنے کے لیے بھیجتے ہو۔۷۔اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، تمہارا رب یقینا بڑا شفیق، مہربان ہے۔اور (اس نے) گھوڑے خچر اور گدھے بھی (اس لیے پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنیں، ابھی اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔
قرآن پاک مویشیوں کے بارے میں بات کرتا ہے جو جانوروں میں سے ایک ہیں- ان کے بہت زیادہ فائدے ہیں جن کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے اور دوسری مخلوقات کی طرح ان کی تخلیق میں بہت زیادہ فائدے ہیں۔قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات بھی اسی کو ظاہر کرتی ہیں اور ان کے علاوہ بھی کافی آیات اس پر موجود ہیں۔زمین پر حیاتیاتی زندگی میں مویشیوں کا ایک بنیادی کردار ہے۔قرآن مجید میں یہ تفصیل سے موجود ہے سنت نبویﷺ نے اس کی مزید وضاحت کی اور جو کچھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے ،اس سے قرآن مجید میں مذکور اس مطلب کی تاکید ہوئی ہے۔سنت میں یہ تاکید ایک بار نہیں کی گئی بلکہ بہت سے مقامات پر کی گئی ہے اس سے مویشیوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔احادیث نبویہﷺ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان جانوروں کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہیے؟ اچھا سلوک اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے ان مویشیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ان کے ساتھ محبت والا رویہ رکھنا انسان کے جنت میں داخلے کا باعث بنتا ہے۔مویشیوں کے ساتھ برا سلوک کرنا جہنم میں لے جاتا ہے اور عذاب کا موجب بنتا ہے۔
قصہ نقل ہوا ہے کہ ایک شخص راستے میں چل رہا تھا اسے بہت زیادہ پیاس لگی ،ایسے میں اسے ایک کنواں ملا ۔وہ شخص اس کنویں میں اتر گیا اور پانی پی کر باہر نکل آیا۔باہر اس نے ایک کتا دیکھا جو شدید پیاسا تھا اور پیاس کی وجہ سے اس کی زبان باہرنکلی ہوئی تھی۔اس شخص نے کہا اس کتے کو تو ایسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی۔وہ کنویں میں اتر گیا اور اپنے جوتوں کو پانی سے بھر لیا اور اس سے کتے کو پانی پلایا۔کتا سیراب ہو گیا اس آدمی نے اللہ کا شکر ادا کیا ،اس کے اس عمل پر اللہ نے اسے بخش دیا۔بعض لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے سوال کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ نیکی میں ثواب ہے؟ہر جگر رکھنے والے (جانور) پر اجر ہے۔اسی طرح نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان فصلیں اگاتا ہے،پودے اگاتا ہے اور اس سے پرندے،انسان اور جانور اس سے کھاتے ہیں تو یہ اس مسلمان کےلیے صدقہ ہے۔
قرآن و سنت نے حیوانات کی اہمیت بہت زیادہ بتائی ہے اور حیونات کے بہت زیادہ فوائد بیان کیے ہیں۔قرآن و سنت جانوروں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں اور ان کی خلقت کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض سورتوں کے نام جانوروں کے نام پر ہیں جیسے بقرہ یعنی گائے،النحل یعنی شہد کی مکھی،نمل یعنی چیونٹی ،عنکبوت مکڑی اور فیل یعنی ہاتھی۔
اسلام نے سب سے پہلے جانوروں کے حقوق کو بیان کیا ہے ،قرآن و سنت اور معصومینؑ کی سیرت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ زمانہ میں جانوروں کے حقوق کی تحریکوں اور نعروں سے سینکڑوں سال پہلے اسلام نے ان کے حقوق کی بات کی، جب دنیا ظلم،جہالت اور گمراہی میں بھٹکی ہوئی تھی۔بعض لوگ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں انہیں یہ بات سمجھنی ہو گی جب وہ جانوروں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر پر بالخصوص ذبح کرنے کے حوالے سے تنقید کرتے ہیں۔
اسلامی میراث میں جانوروں کے حقوق کی سبقت پر کافی لٹریچر موجود ہے۔اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام نے اس کمزور طبقے کا کس قدر خیال رکھا ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کی حقوق الحیوان کی اصطلاح ابتدائے اسلام سے ہی موجود اور متداول ہے اسلام میں یہ نئی اصطلاح نہیں ہے جیسے بعض حقوق کی تنظیمیں اس کا دعوی کرتی ہیں۔اسلامی میراث میں ایسی ہدایات موجود ہیں جو اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ جانوروں کے حقوق کا خیال کرنا بہت ہی ضروری ہے۔اور اس کے علاوہ، اسلامی ورثہ میں وہ چیز ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ لوگ ان حقوق کی فراہمی کے پابند ہیں اور یہ نعرہ نہیں کہ اسلام نے سب سے پہلے جانوروں کو حقوق دیے ہیں جیسا کہ بعض لوگ اس کا گمان کرتے ہیں۔
اور اس کے علاوہ اسلامی ورثہ ان حقائق سے بھرا ہوا ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام صرف ان جانوروں کے مادی حقوق کی حفاظت کے حکم کے ساتھ مطمئن نہیں ہوا۔بلکہ ان کے جذبات کو سکون و خوشی دینے کی ضرورت پر زور دیا اس لیے ان پر لعنت بھیجنے کی ممانعت کی اور ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح کرنے سے منع فرمایا،اسی طرح ان کی ایذا رسانی سے منع کیا۔اسی طرح اسلام نے ایک اور طرح سے ان کے حقوق کا خیال رکھا ہے وہ حقوق کہ آج بھی جانوروں کے حقوق کے لیے قائم تنطیمیں ان حقوق پر کام نہیں کر رہیں کہ جانوروں کی دیکھ بھال کی مالک کی طرف سے ضمانت دی جائے اور حاکم شرع کو کسی بھی کوتاہی کی صورت میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔جانوروں کو اذیت پہنچانا حرام قرار دیا گیا جیسے مرغ لرائی،کتا لڑائی اور بلف فائٹنگ کو حرام قرار دیا گیا ۔
اسلام نے ان کا خیال رکھتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے،اسے کھلانے پلانے اور اس کا تحفظ کرنے کا حکم دیا ہے۔اسلام نے جانوروں کے ایسے شکار سے منع کیا جو ان کی آبادی کے نظام میں خلل ڈال دے۔اس شکار سے بھی منع کیا ہے جو ذاتی جنگل میں ہو یا کسی کی نجی ملکیت والی جگہ پر ہو۔اسی کو آج جانوروں کی آبادی کو مناسب انداز میں رکھنے کے طریقہ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اسلام نے ان جانوروں کے حقوق کو بیان کیا ہے جن سے کام لیا جاتا ہے ان پر زیادہ بوجھ لادنے سے منع فرمایا ہے جانور کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن جعفرؑ روایت کرتے ہیں میں ایک دن نبی اکرم ﷺ کے پیچھے چل رہا تھا آپﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے جو ایک انصاری کا تھا۔ایک اونٹ نے جب نبی اکرمﷺ کو دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بڑبڑھانے لگا،آپﷺ اس اونٹ کے پاس آئے اور اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا،آپﷺ نے پوچھا اس کا مالک کون ہے؟اس پر ایک انصاری جوان آیا او رکہا اے اللہ کے رسول یہ میرا ہے ،آپﷺ نے ارشاد فرمایا:تم اس جانور کے متعلق اللہ سے نہیں ڈرے جو اللہ تمہیں دیا ہے؟اس نے مجھے شکایت لگائی ہے کہ اسے بھوکا رکھتے ہو اور زیادہ کام لیتے ہو۔
ہم علمی طور پر فقہ اسلامی میں بعض جانوروں کی کلوننگ کو درست سمجھنے کے معاملے کو اسی صورت میں درست سمجھتی ہے جب کوئی بڑی مصلحت موجود ہو۔