یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ ہر اخلاقی نظام کے لیے ایک اخلاقی نظریہ موجود ہوتا ہے جس پر وہ نظام اعتماد کرتا ہے اور اسی نظریے سے اس نظام کی قدر و قیمت معین کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر نظریے کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں جن پر وہ قائم ہوتا ہے اور اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ ان بنیادی اصولوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو تمام اخلاقی نظریات میں مشترک ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کسی ایک نظریے کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ تمام اخلاقی نظریات میں پائے جانے والے مشترک بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
۱۔ انسان اپنی راہ انتخاب کرنے میں آزاد ہے۔
۲۔ ہر انسان کا کوئی نہ کوئی حتمی ہدف ہے جس کے حصول کے لیے وہ اپنی زندگی میں کوشاں رہتا ہے۔
۳۔ انسان اپنے شایان شان کمال تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہے۔
۴۔ انسان کی سعادت یا بدبختی اس کے اپنے اختیار کردہ راستے کی بدولت ہوتی ہے۔
ہم انسان کے ارادے کی آزادی کی بارے میں قرآن کریم کا موقف بھی جانتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ قرآن مجید انسانی کمال کو اخلاقی نظریے کا اساسی اور بنیادی اصول سمجھتے ہوئے اس کے بارے میں کیا موقف اختیار کرتا ہے اور انسان کے شایان شان کمال کے حوالے سے اس کا کیا نظریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (105) فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (107) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ. (ہود ـ 105 ـ 108) [جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے ۔(105) پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔(١٠٦) وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بےشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔(١٠٧) اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔(١٠٨)]
پھر فرماتا ہے: لكِنِ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ جاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ وَ أُولئِكَ لَهُمُ الْخَيْراتُ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88)أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدينَ فيها ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ (89) [جب کہ رسول، ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور اب ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(88) ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے۔(89)]
انسانی کمال واحد اور اس قدر واضح مفہوم ہے کہ اس میں کوئی دو افراد بھی اختلاف نہیں کر سکتے، جیسا کہ انسان وجود اور نور کے مفہوم کو سمجھنے میں اختلاف نہیں کرتے۔ البتہ اختلاف سارے کا سارا کمال کے مصادیق میں ہے۔ کچھ لوگ ایک چیز کو کمال کا مصداق سمجھتے ہیں اور کچھ کسی دوسری چیز کو۔
ہر شخص کی زندگی میں ایک اعلیٰ ہدف ہوتا ہے جس تک پہنچنے کی وہ کوشش کرتا ہے، پس وہ اسے اپنی زندگی میں اپنا ہدف اور مقصد قرار دیتا ہے۔ وہ ہدف اس کی امیدوں کا مرکز ہوتا ہے اور اس کے تمام اعمال اور خواہشات میں وہ ایک فعال اور واضح محرک ہوتا ہے۔ پس کمال وہ بلندی ہے جس کی طرف انسان اپنی زندگی میں حرکت کرتا رہتا ہے۔ ہمیں شاید ہی کوئی ایسا انسان ملے جس کی زندگی میں کوئی آرزو نہ ہو یا اس کے دل میں کسی انجان چیز کی آرزو ہو۔
ہر انسان فطری طور پر خود پسند ہوتا ہے۔ اسے یہ بات پسند ہے کہ وہ سعادت مند ہو اور زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انسان جب بھی زندگی کی طرف نظر کرتا ہے تو وہ اس میں کامیابی اور سعادت مندی ہی کا طالب نظر آتا ہے۔
پس کامیابی، فلاح اور سعادت وہ کلمات ہیں جو ایسے مشترک مفہوم کی عکاسی کرتے ہیں جس کا ارادہ ہر انسان اسی وقت سے کر لیتا ہے جب سے وہ اپنی شعوری زندگی کا آغاز کرتا ہے اور کمال کی طرف یا جسے وہ کمال، سعادت اور کامیابی سمجھ رہا ہوتا ہے، اس کی طرف اپنی کوشش شروع کرتا ہے۔
کمال کی خواہش ہر انسان کو ہوتی ہے۔ ہم کسی ایسے انسان کا تصور ہی نہیں کر سکتے جو کمال سے غافل ہو یا کمال سے تنزل کی طرف آنا چاہتا ہو۔ لوگ اپنی زندگی میں ثقافت، نظریات اور عقائد میں پائے جانے والے اختلاف کے باوجود کمال کی طرف جانے کی آرزو اور خواہش میں اختلاف نہیں رکھتے۔
انسان کی اپنی زندگی میں ایک آئیڈیل کو اختیار کر کے اس کے سائے میں کمال کی طرف جانے کی آرزو ایک ایسا امر ہے جس کی تفسیر انسان کا ہر وہ عمل کرتا ہے جسے وہ اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے۔ یہی تمنا اس کے کاموں کو وجود میں لانے کی علّتِ قریب یا علّتِ بعید بنتی ہے۔
قرآن کریم نے اس اصول کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت اس انداز میں کی ہے:
۱۔ قرآن کریم نے ایک انسان کےلیے دنیاوی زندگی میں ایمان باللہ کے حصول اور عمل صالح کی انجام دہی کو ضروری قرار دیا اور اس کی علت یہ بیان کی کہ یہ دونوں ایک ساتھ ہوں تو اس کا نتیجہ ابدی فلاح اور کامیابی کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے کفر، شرک، نفاق اور فسق سے اجتناب کو ضروری قرار دیا کیونکہ یہ امور انسان کی ابدی بدبختی، خسارے اور نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
۲۔ اسی طرح اس نے روزے کے وجوب کی علت یہ بیان کی کہ اس سے مومن کے اندر تقویٰ کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ بتایا کہ روزے کو تقویٰ کے حصول کے لیے اس لیے واجب قرار دیا گیا ہے کیونکہ تقویٰ انسان کو فلاح کی طرف لے کر جاتا ہے۔ جبکہ دیکھا جائے تو قرآن نے کامیابی کے حصول کی ضرورت کو بیان نہیں کیا اور نہ بدبختی سے بچنے کی ضرورت کا تذکرہ کیا۔
احکام الٰہی کی علت بیان کرنے اور انسانی رویوں اور ان کی ایک ایسی جہت کی طرف رہنمائی کرنے کی علت بیان کرنے سے جو انہیں کامیابی اور فلاح تک پہنچائے اور خسارے اور بدبختی سے دور رکھے، ہمیں سعادت کے حصول کو ضروری قرار دینے کی علت کی ضرورت نہیں رہتی۔ گذشتہ بحث سے ہم درج ذیل مطالب اخذ کر سکتے ہیں:
الف۔ کامیابی اور فلاح کی خواہش جو ہر انسان کے مطلوبہ کمال کی دوسری تعبیر ہے، کسی دلیل اور علت کی محتاج نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ذاتی خواہش ہے۔ پھر ہر ذی شعور، صاحب عقل اور صاحب ارادہ انسان کمال کے حصول کی کوشش کرتا رہتا ہے جو سعادت، کامیابی اور خوشی کی شکل میں مجسم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے کوشش کرنا لغو اور عبث ہے، اگرچہ سعادت اور کامیابی کے مصداق کے حوالے سے لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ب: قرآن کریم چونکہ ہدایت و ارشاد کی کتاب ہے لہٰذا یہ بالکل طبیعی ہے کہ وہ اس وقت تک انسان کی ہر اس چیز کی طرف رہنمائی کرتا رہے جو اس کے لیے کامیابی ہو اور حقیقی کامیابی اور واقعی سعادت شمار ہوتی ہو جب تک کہ سعادت کی واقعیت اور کامیابی کی حقیقت کے بارے میں پائے جانے والے نظریات مختلف ہوں اور کسی ایک نکتے پر اتفاق نہ کرتے ہوں۔
ج: انسانی رویے اور اعمال رہنمائی، ہدایت اور تعلیل کی محتاج ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے اہم اور قابل توجہ وجہ انسان کا سعادت اور کامیابی سے محبت کرنا اور بدبختی اور خسارے سے نفرت کرنا ہے۔ یہ دو اسباب اصلی اور فطری ہیں اور ان کی تاثیر انسانی وجود کی گہرائیوں سے نکلتی ہے۔
د: انسان بعض اوقات اپنی زندگی کے آغاز میں آسانی اور سرعت کے ساتھ کسی ایسے کمال کو دریافت نہیں کر سکتا جو اس کے شایان شان ہو اور اگر دریافت کر بھی لے تو وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتا اور اس پر صدقِ دل سے یقین نہیں رکھتا۔ لہٰذا وہ رکاوٹ جو انسان کے اپنے شایان شان کمال تک پہنچنے میں مانع ہوتی ہے وہ دو امور میں خلاصہ کی جا سکتی ہے:
۱۔ اپنے شایانِ شان کمال سے عدم آگاہی یا اس کمال کے اپنے شایان ہونے پر اعتقاد نہ ہونا۔
۲۔ ان امور سے آگاہ نہ ہونا یا ان پر ایمان نہ رکھنا جو اسے کمال تک پہنچاتے ہیں۔
لہٰذا قرآن مجید بہت ہی فعال انداز میں جواب دیتا ہے تاکہ انسان کے لیے اس کے شایان شان کمال کے مصداق کو واضح کر سکے۔ وہ مختلف طریقوں سے انسان کو یہ بات سمجھاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اس پر ایمان لا سکے۔
اسی طرح قرآن مجید انسان کے اختیار کردہ راستے کی طرف اس کی رہنمائی کی ذمہ داری بھی اٹھاتا ہے اور اس رہنمائی کا چشمہ انسان کی کمال و سعادت کے ساتھ محبت یا بدبختی اور خسارے سے نفرت یا خوف سے پھوٹتا ہے۔ لہٰذا یہ انسان کے اختیار کردہ راستے کو فقط خشک قوانین کے ذریعے ہی کنٹرول نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر موثر داعی اور سبب پیدا کرنے کی بات بھی کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مناسب ماحول بھی فراہم کرتا ہے تاکہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والا عاقل انسان اس راستے کو اپنانے کی ضرورت کا قائل ہو جائے جو قرآن کریم اسے دکھاتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ یہی راستہ حقیقی سعادت تک پہنچائے گا اور حقیقی بدبختی سے دور کرے گا۔
اس سلسلے میں موجود قرآن کریم کا موقف سمجھنے کے لیے ہمیں ان آیات پر دقت اور غور و فکر کرنا پڑے گا جو ہم مضمون کے شروع میں لے کر آئے ہیں۔ یہ آیات قرآن مجید کے پیش کردہ نمونوں میں سے فقط ایک نمونہ ہیں۔ اور ان نمونوں پر قرآن کریم نے متعدد طریقوں سے تاکید کی ہے تاکہ انسان اپنے مکمل ارادے اور کامل اختیار کے ذریعے وہ اہداف حاصل کر سکے جو اس کے لیے طے کر دیے گئے ہیں۔
سورہ ہود میں ان آیات میں غور فرمائیں:يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (105) فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (107) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ. (ہود ـ 105 ـ 108) [جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے ۔(105) پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔(١٠٦) وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بےشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔(١٠٧) اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔(١٠٨)]
پس ہر انسان کا اپنا خاص انجام ہے جسے اس کے اپنے ارادے سے انجام دیے گئے اور اختیار کیے گئے اعمال ہی طے کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی وضاحت فرما دی ہے: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (النجمـ 39) [اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔] كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (المدثرـ 38) [ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے] إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا .... (الإسراء ـ7) [اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی]
پس حقیقی بدبختی جہنم کے استحقاق کی شکل میں سامنے آتی ہے: ’’وہ نیکی نیکی نہیں جس کے بعد جہنم ہو۔‘‘ اور حقیقی سعادت جنت کے استحقاق کی صورت میں مجسم ہوتی ہے: ’’وہ برائی برائی نہیں جس کے بعد جنت ہو۔‘‘
مگر انسان کا اختیار کردہ راستہ اس کے انجام کو کیسے محقق کرتا ہے، اس کے لیے ہم سورہ مائدہ کی اس آیت میں دیکھتے ہیں: هذا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّادقينَ صَدْقَهُمْ لَهُمْ جَنّاتٌ تَجري مِنْ تَحْتِها الانهارُ خالِدينَ فيها أبَداً رضي اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضوا عَنْهُ ذَلك الفَوْزُ العَظيم۔ (المائدة ـ119) [اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا، یہی بڑی کامیابی ہے۔] یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی حکایت اور تائید کرتی ہے: ولا تُخْزِني يوم يُبْعَثونَ () يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنونَ () إلاّ مَنْ أتى اللّهَ بِقَلْب سَليم۔(الشعراء ـ 87 ـ89) [اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کرآئے۔] یا آیت: قَدْ أفْلَحَ مَنْ تَزكّى () وَذَكَرَ اسْمَ رَبّهِ فَصَلّى۔ (الأعلى ـ 14ـ15) [بتحقیق جس نے پاکیزگی اختیار کی وہ فلاح پا گیا۔ اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔] ، اور آیت: قَدْ أفْلَحَ مَنْ زكّاها۔ (الشمس ـ9).[ بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا۔]
یہ جو سعادت عظمیٰ کو فلاح اور عظیم کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں سورہ توبہ میں فلاح اور فوزِ عظیم کو جمع کیا گیا ہے: لَكِن الرّسولُ وَالّذينَ آمَنوا مَعَهُ جَاهَدوا بأمْوالِهِمْ وَأنْفُسِهِمْ وَأولئِك لَهُم الخَيْرات وَأولئِك هُم المُفْلِحون () أَعدّ اللّهُ لَهُمْ جَنات تَجْري مِنْ تَحْتَها الانـْهار خالِدينَ فيها ذلِكَ الفَوْزُ العَظيم۔ (التوبة ـ 88ـ89).[ جب کہ رسول، ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور اب ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے.]
یہ ہے قرآن مجید کا موقف انسان کی کمال کی تمنا کے بارے میں اور انسان کے شایان شان کمال کے بارے میں، تاکہ انسان اپنے پورے وجود اور قویٰ کے ذریعے اس کی خواہش کرے۔ یہاں پر اس معاملے میں قرآن مجید کے موقف کو سمجھنے کے لیے جو اصطلاحات ہماری رہنمائی کرتی ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ سعادت اور شقاوت، ان کے مشتقات اور وہ الفاظ جو سعادت اور شقاوت کا مفہوم دیتے ہیں۔
۲۔ الفوز، اس کے مشتقات اور متضاد۔
۳۔ الفلاح، اس کے مشتقات اور متضاد۔
۴۔ الآخرۃ۔
۵۔ المنتہیٰ (انتہاء)
۶۔ المصیر (انجام)
۷۔ الجزاء (جزاء)
۸۔ الربح(منافع)، الخسران (خسارہ)، الخزی (رسوائی)
۹۔ وہ تمام آیات جو انسان کے انجام، سعادت اور کامیابی کو ان مصادیق پر منطبق کرتی ہیں جو پروردگار نے انسانوں کے لیے پسند فرمائے ہیں۔
۱۰۔ وہ تمام آیات جنہوں نے مختلف انسانی اعمال کی علت بیان کی ہے اور ہر صنف کے نتائج کو لام تعلیل یا لَعَلَّ (جو امید کا معنی دیتا ہے) کے ذریعے بیان کیا ہے، مثلاً آیت: لَعَلّكُمْ بِلقاءِ رَبّكُمْ تُوقِنون۔ (الرعد ـ2) [شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔]
پس انسان کے شایان شان کمال کو مشخص کرنا اور اس کے واضح مصداق کو اس طرح معین کرنا کہ انسان کے لیے اس کے سمجھنے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے، ان اہم امور میں سے ہے جن کو پیش کرتے ہوئے قرآن کریم نے انسان کو عزت بخشی ہے، وہ انسان کہ قرآن مجید نے جس کی ہدایت اور اسے مطلوبہ کمال تک پہنچانے کا ذمہ لیا ہے۔