ويب سائٹ "اسلام کیوں ؟ "کے نام کے دوسرے اور تکمیلی مرحلہ کے طور پرواقع ، لفظ " کیوں ؟" نے مجھے نہ صرف سوچنے پر مجبور کیا ،بلکہ شدت سے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ کیونکہ اس کلمے نے میرے وجدان میں کئے سالوں سے دبے بہت سے احساسات کو متحرک کر دیا۔ جو کہ اگرچہ گزشتہ قلیل عرصے سے خاموش ہوگئی تھیں اور اس آگ کا جلانا کچھ کم ہو گیا تھا۔ لیکن گاہے بگاہے یہ آگ بھڑک اٹھتی اور میری معرفت کے تمام ستونوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی ۔ اور مجھے ایک ایسی حقیقت سے رو برو کر دیتی کہ جس کو ماننا بہت مشکل ہے۔
ایک مشکل حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک افسانوی دنیا میں رہتے ہیں، کلمہ "افسانوی" کا جو بھی معنی ہو وہ اس حالت پر مکمل صدق کرتا ۔ بلکہ تمام سمندر سیاہی بن جائیں ، تمام درخت قلم بن جائیں، اور تمام انسان کسی بھی ممکنہ افسانے کو لکھنے بیٹھ جائیں تو وہ افسانہ ہماری افسانوی حالت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، کہ جس میں ہم اندھوں کی طرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ لفظ "کیوں" بولنے میں بہت آسان ، اور سننے، سمجھنے میں سادہ سا لگتا ہے ، اسی طرح سادہ مزاج اور دھوکہ دینے والے آشانائی کے پردوں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری عقلوں کے لئے قلیل اہمیت والا لفظ بھی ہے۔
کیونکہ یہ آشنائی کا وہم ان عقول پردھوکہ کی چادر ڈال دیتی ہے اور پھر ان پر ہنستی ہے ۔ حقیقت میں یہی آشنائی ہی عالم معرفت میں بلندیوں تک پرواز کرنے کی راہ میں انسانی عقل کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہوتی ہے ۔
"آشنائی کے حجاب میں لپٹی ہوئی عقل" سے مراد وہ عقل ہے کہ جو چیزوں کو ابتدائی مرحلے میں دیکھ کر حاصل ہونے والی معلومات کو ہی ان چیزوں کے بارے میں معرفت قرار دے کر عقل کی حرکت کو وہیں پر روک لیتے ہیں ۔ پس وہ ہمارے سامنے سجے سٹیج کے بارے میں صرف وہی کچھ جانتی ہے، کہ جو پہلی دفعہ اس سٹیج پر نظر پڑنے پرانہیں معلوم ہوا تھا ،حالانکہ وہ بعض ظاہری دکھاوا اور کچھ اداکاری ہے جو اس سٹیج پر دکھائی گئی ہے ۔ اس نے کبھی بھی اس سے آگے بڑھ کر اس سٹیج کی حقیقت کے بارے میں سوال نہیں کیا ،
اسی طرح یہ عقل اس سٹیج پروجود کے نام پر دکھائی جانے والی دل فریب اداکاریوں کے پیچھے کارفرما قوانین کے بارے میں کبھی سوال نہیں کرتی ۔ وہی وجود کہ جوتمام موجودات کی حقیقت میں سے صرف اتنا حصہ ہمارے لئے آشکار ہونے دیتا ہے جتنے کی اجازت وجود کے قوانین دیتے ہیں ۔
جی ہاں ، شاید اس بات پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ لفظ "کیوں" تلفظ میں آسان ، بلکہ زبان پر بہت سلیلس اور کانوں کے لئے میٹھا سا لفظ ہے ، لیکن جس طرح بعض لوگ اسے سمجھنے میں بھی آسان سمجھتے ہیں اتنا یہ یہ لفظ نہ سمجھنے میں آسان ہے اور نہ ہی کم اہمیت ہے ۔ خصوصا ان عقلوں کے لئے جو آشنائی کے حجاب کو توڑ کر چیزوں کے بارے میں گہرے غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،اور اس طرح وہ پردہء آشنائی کے پیچھے چھپے ان گہرے معانی کو درک کر لیتے ہیں کہ جو لفظ "کیوں" کے بارے میں دیگر لوگوں کی عقل سے آشنا معانی اور حقائق سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔
لفظ "کیوں" کے حروف کے پیچھے سوال کا معنی چھپا ہوا ہے اور اسی حد تک توآشنائی کی قید میں مقید اذھان بھی پہنچ پاتے ہیں ، لیکن اگر ہم اس آشنائی کے پردے کو توڑ کر غور و فکر کے ساتھ گہرائی میں دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس لفظ کا معنی صرف سوال سے کہیں گہرا اور وسیع ہے ۔ اس عمیق معنی کو اسی لفظ سے مربوط چند دیگر الفاظ کو بھی ساتھ ملا کر زندگی کا حصہ بنا کر دیکھنے سے سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے ۔ بلکہ در حقیقت یہی الفاظ ہی "کیوں" کے اس گہرے معنی کی بنیاد قرار پاتی ہیں ۔ یہ در اصل مربوط معارف کی ایک قسم ہے کہ جس کو عقل صرف اور صرف تب درک کر سکتی ہے جب ان کو ایک ساتھ ملا کر دیکھا جائے ،
پس وہ الفاظ کہ جن کے سمجھنے اور ساتھ دیکھنے پر لفظ "کیوں" کا حقیقی اور گہرا مطلب سمجھ میں آتا ہے وہ گمشدگی و تلاش ،تفکر و تامل ، سفر و استمرار، محبت و تکلیف ، حقیقت و حیرت ، تھکاوٹ و احساس کمزوری ،ہجرت و تنہائی ، صبر و اعتماد ، مقابلہ و جہاد ، درماندگی و اصرار، دوری و حصول ، اور وہم و ادراک وغیرہ ہیں ۔
لفظ "کیوں" کےاس عمیق اور گہرے معنی تک نظر وتصور کے ذریعے نہیں پہنچا جاسکتا کہ جس میں انسان حقائق تک پہنچنے کے لئے مطالب کو جمع اور ان کی تحلیل کرتے ہیں ، بلکہ اس معنی کو تب درک کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان مزکورہ کلمات کو اپنی زندگی میں محسوس کریں ، اگر ایسا ہوا تو وہ اس بات پر قادر ہو جاتا کہ کہ وہ " کیوں " کا ایک ایسا معنی نکال سکتے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے ، اس معنی کو ذھن سے قریب کرنے کے لئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ :وجود و عدم کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے تحقیق سے عشق"۔
عقل جن مفاہیم کو درک کرتی ہے ان میں سب سے زیادہ وسیع و عریض وجود اور عدم کا مفہوم ہے ،اور ان میں یہ قدرت ہے کہ وہ معرفت وجودی کے میدان میں عقل جن موجودات کو فرض کر سکتی ہے ان تمام کی حقیقت اپنے اندر سمو سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ بحث و تحقیق کے تمام راستے کہ جن کو عملا شمار کرنا ممکن نہیں وہ بالآخر جاکر انہی دو حقیقتوں یعنی وجود اور عدم سے رو برو ہو جاتے ہیں .
وجود و عدم کی جنگ کے بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد تعلق مزید بڑھتا ہے اور عشق قوی ہو جاتا ہے ،یہاں تک یہ تعلق بوجھ اور عشق پورے جسم کو تھکاوٹ سے چور کرنے لگتا ہے تو اس مرحلے پر پہنچ کر انسان یہ کہنے کے لائق ہو جاتا ہے کہ وہ لفظ "کیوں" کے ذریعے سوال کے پیچھے چھپے گہرے معنی کو درک کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ "کیوں " کے ذریعے سوال سنتے ہی اب اس کے ذہن میں وہ تمام کلمات اور ان کے معانی بھی حاضر ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ اس نے زندگی گزاری ہے ،جیسے تلاش ، تحقیق ، حقیقت ، تھکاوٹ ، تفکر ، سفر وغیرہ وغیرہ ، اور یہ معانی اپنے ساتھ زندگی کے سفر میں انسان کو واسطہ پڑنے والے مفاہیم کا ایک بڑا ذخیرہ لے کر آتے ہیں کہ جن سے حقیقت کی تلاش کے سفر کے مختلف مراحل میں عقل کا واسطہ پڑتا ہے ۔ وہ سفر کہ جس کی ابتداءلفظ "کیوں " اور اس جیسے دیگر الفاظ سے ہوا ، جب ارادہ کی قوت سےآشنائی کا حجاب توڑا گیا اور عقل نے اس یقین کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا کہ کسی بھی موضوع کی وسعت کا اندازہ صرف اس کی حقیقی معرفت کے بعد ہی ہو سکتا ہے ۔
یہاں تک پہنچ کر عقل بشر نے لفظ "کیوں" اور اس قبیل کے دیگر الفاظ کی اہمیت کو درک کرلیا ، اور یہ سمجھ لیا کہ کمال تک پہنچانے والی حقیقی معرفت کا راستہ انہی الفاظ سے ہو کر گزرتا ہے ۔ اور یہ حقیقی معرفت کے وسیع راستے میں نصب رہنما علامات يہی الفاظ قرار پاتے ہیں ،جہالت اور آشنائی کی دیوار میں سوال کے انہی الفاظ کے ذریعے حقیقت کی روشنی کو گزارنے کے لئے سوراخ کیا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جو لطیف اشارے دئے ہیں ،ان میں سے ایک کہ جو ہمارے موضوع گفتگوکی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے ، یہ بھی ہے کہ یہی کلمہ کیوں ہی تو تھا کہ جس کا سب سے پہلے اظہار مخلوق خدا یعنی ملائکہ نے خدائے عظیم کے سامنے کیا ، اور خدا نے اس سوال کو قبول بھی کیا، بلکہ اسے اپنے عظیم ہدیہ ،جس کے ذریعے انسان باقی مخلوقات سے ممتاز ہوا ، یعنی عقل کا محور قرار دیا ،عالم دنیا میں انسان کی وجود سے متعلق ہونے والی گفتگو میں یہی" کیوں "ہی دوسری اہم حقیقت تھی ۔ اس" کیوں "سے پہلے فقط اس دنیا میں انسانی وجود کے بارے میں اللہ تعالی کی جانب سے خبر تھی ۔
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (30)
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ (البقرة ـ 30ـ31)
آخر میں ہم اپنی بات اس پر ختم کرتے ہیں کہ لفظ "کیوں" اور اس جسیے دیگر الفاظ اگرچہ سوال پر دلالت کرتے ہیں مگر ان کا اس سے کہیں گہرے معانی بھی ہیں کہ جنکا ذکر ہم نے کیا ۔ پس اس گہرے معانی کے مطابق عالم معفرت میں ان الفاظ کی بڑی اہمیت ہوگی ، کہ جس کا انسانی کمال سے گہرا ربط ہے ، پس اگر معاملہ ایسا ہے جیسا کہ ہم نے کہا تو پھر سوال سے خوف اور ڈر کیوں ؟راہ معرفت کے ابتدائی راہیوں سے انکار و نفرت کیوں؟