- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


ادیان سماوی کا انسان کی فکری ترقی میں کردار
5 ربيع الاخير 1443هـ

عقل وہ اہم ترین چیز ہے جو انسان کو دوسری تمام زندہ مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کے ذریعے انسان میں  فکر کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔عقل کے ذریعے انسان حقیقت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر انسان زمین پر خلافت الہیہ کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے یہ ایسا مرتبہ ہے جو صرف انسان کو حاصل ہے۔یہ انسان کی اعلی قابلیت و لیاقت کی وجہ سے ہوتا ہےاسی کی بنیاد پر اللہ تعالی نے انسان کے لیے زمین و آسمان میں موجود ہرچیز کو مسخر کر دیا ہے۔اس کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے اور کام عقل کے ذریعے آسان ہو گئے ہیں۔طاقت کے باوجود فطری طور پر اس طاقت میں محدودیت بھی ہے،اس کی فکر محدود ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے یہ ایک حادث مخلوق ہے جو پہلے کچھ نہیں جانتی تھی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)) (النحل-78)

اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو۔

اسی لیے انسان کو ہمیشہ اللہ کی رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے ذریعے انسان دنیا  و آخرت میں  باکمال و  قدرت مند ہو کر کامیاب ہو جائے۔انہی الہی تعلیمات کی روشنی میں وہ اس مقصد کی طرف بڑھتا ہے جس کے لیے اسی خلق کیا گیا ہے اور وہ  اسی فطری طور پر پہلی بار ہی بتا دیا گیا تھا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا)) (الشمس-7-8)

اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا، ۸۔ پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔

اللہ نے مختلف زمانوں میں  وقفوں کے ساتھ انبیاء و رسول بھیجے تاکہ انسان اپنی عقل کی بنیاد پر ان سے اللہ کا نازل کردہ فیض حاصل کرے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ بات ہمارے نبی ﷺ پر  پہچی اور اسلام میں  کامل ترین دین کے طور پر بطور آخری دین آ گیا  جو  انسان کو فکر و معرفت کی کامل ترین منزل تک پہچاتا ہے۔

ادیان سماو ی کیوں؟

انسان تکوینی طو رپر یہ جانتا ہے  کہ وہ کمال کا متلاشی ہے  یہ کمال مادی اور روحانی ہر دو طرح کا ہوتا ہے۔اس سے انسان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ  وہ مادی اور روحانی طور پر اعلی منزل پر فائز ہو ۔انسان بذات خود یہ دونوں کام اکیلے نہیں کر سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ   وہ ایسی غنی ہستی کی طرف محتاج  ہے جو اس کی حاجات کو پورا کرے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ)) (فاطر-15)

اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

انسان اپنی طبعیت کو  اس طرح ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی کامیاب ہو اور وہ چاہتا ہے کہ آخرت میں اللہ کی رضا بھی حاصل رہے۔اس لیے وہ چاہتا ہے کہ اس کا عقیدہ درست رہے اور وہ اس کے مطابق عمل صالح انجام دے  اسی لیے وہ دین سماوی کی طرف آتا ہے۔یہ دین اس کے لیے مصدر اور استاد  ہے اس کو اس کی مزل تک پہنچانے والا ہے۔

 اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 ((وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا)) (الإسراء-70)

اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

تمام ادیان سے غرض اور مقصد یہی ہوتا ہے۔

فکر انسانی کی ترقی اور ادیان سماوی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام ادیان سماوی ایک ذات کی طرف پلٹتے ہیں اور وہ اللہ ہے جس کا علم اس عین ذات ہے اور انسان فطرت کے مطابق ایک طالب علم ہے ارشاد خدا ہوتا ہے:

((وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ)) (يوسف-76)

اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

تمام ادیان سماوی ایک علیم ذات کی طرف پلٹتے ہیں فکر انسانی کی ترقی  اس کے طالب علم ہونے میں ہے ۔وہ علیم ذات انسان کو ادیان آسمانی کے ذریعے پیغام دیتی ہے اور انسان سے مخاطب ہوتی ہے۔ان ادیان آسمانی میں  وقت کے حساب سے تکامل ہوتا رہا اور اسی حساب ان کے احکام اور شریعتوں میں بھی وسعت آتی رہی  اس کی وجہ یہ تھی کہ انسانی فکر میں وسعت پیدا ہو رہی تھی اسی حساب سے شریعتوںمیں بھی وسعت آ رہی تھی کیونکہ یہ شریعتیں انہیں انسانوں کے لیے آ رہی تھی۔یہ سب تو پہلے تھا جب اسلامی شریعت آنے لگی تو  اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ آخری شریعت و دین ہے۔ آخری شریعت ہونے کی وجہ سے یہ پہلی والی تمام شریعتوں سے مستقبل تھی۔ بلکہ یہ  شریعت  پہلے بہت سے عناصر سے ملکر بننے والی شریعتوں کو بھی مکمل کرنے والی تھی۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت اور دیگر تمام شریعتیں ایک ہی ہستی کی طرف سے آرہی تھیں۔اسی لیے ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ  اس میں پوری  شدت سے پہلی شریعتوں اور ادیان کے تذکرے موجود ہیں قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے:

((إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)) (البقرة ۶۲)

بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

ادیان سماوی کا انسانی فکر پر اثر

انسان  نے معلومات کے لیے بڑی کوشش کی ہے  اس کے باوجود  وہ محدودیت کے دائرے میں مقید ہے اور  اس کے افکار بھی اسی طرح ہیں۔اس کے نیتجے میں اس کے پاس سوالات تو بہت زیادہ ہیں مگر ان کے جوابات نہیں ہیں ایسے جوابات جو اس کو مطمئن کر سکیں۔ بہت سے ناشناختہ  امور ایسے ہیں جن کو جاننے سے انسان اور اس کے بنائے آلات قاصر ہیں کہ یہ کیسے واقع ہوتے ہیں۔انسان بہت سے واقعات جو اس کی زندگی میں واقع ہوتے ہیں ان کی وجوہات جاننے سے قاصر ہےجیسے اس کے اپنے وجود کو پیش آنے والی موت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔اسی طرح انسان باقی عالم کے بارے میں بھی بہت کم معلومات رکھتا ہے جیسے سمندروں  میں کیا ہے؟ خود زمین کے اندر کیا ہے؟ اس طرح کی بہت سے چیزیں نہیں جانتا یا نامکمل جانتا ہے۔اس کا یہ نا جاننا اسے  اسے ادیان سماوی کی طرف لے کر آتا ہے۔ادیان سماوی کی تعلیمات زندگی کے تمام پہلووں کے بارے میں ہیں اور یہ اللہ کی بندوں پر رحمت ہے اور سچی نصوص یہ تعلیمات بتاتی ہیں۔خاص کر یہ نصوص موت کی حقیقت کے بارے میں بات کرتی ہیں اور انسان کو دوسرے عالم کے بارے میں بتاتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ادیان سماوی اخلاقیات کی تربیت کرتے ہیں اور اس پر تاکید کرتے ہیں انسان کو حلال و حرام کی تعلیم دیتی ہیں کچھ کاموں سے روکتی ہیں ہیں اور کچھ کے کرنے کا حکم دیتی ہیں۔یہ تعلیمات انسان کی فکری  رہنمائی کرتی ہیں کہ اسے کیسے زندگی گزارنی ہے اور اس نے دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے ۔یوں انسان فکری کمال تک پہنچ جاتا ہے۔