- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


امامت میں جعل کا معنی
2 ذو الحجة 1443هـ

امامت عبارت ہے امت کی قیادت کرنے، ان کے امورِ زندگی کو نظم و نسق دینے اور منھاجِ نبوت کو تکمیل تک پہنچانے سے ۔ پس یہ ایک الہی منصب ہے۔ اور خدا وند متعال ہی اسے قرار دیتا ہے، بلکہ یہ اللہ کی جانب سے تبلیغ کے تسلسل کا لازمہ ہی ہے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امامت بندوں کے اوپر اللہ کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ لہذا یہ بھی نبوت کی طرح ایک خدائی عہدہ ہے کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو ہی حق و اختیار حاصل ہے کہ جس طرح انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے اسی طرح ان کے لئے امام منصوب کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہی ہے جو اپنی مخلوق میں سے یہ بندہ یا اس بندے کو اختیار کرے تاکہ اس کے اوپر نبوت یا امامت کی ردا ڈال دی جائے گی دوسرے کسی کو نہیں ۔

بہت سارے قرآنی شواہد ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امامت ایک عہدہ الہی ہے، ان میں سے ایک یہ آیت ہے:

((وَإِذِ ابتَلَى إِبرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهدِي الظَّالِمِينَ))(سورة البقرة ـ 124)

ترجمہ : اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت سے؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔  اور یہ ارشاد خداوندی:

((وَنُرِيدُ أَن نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ استُضعِفُوا فِي الأَرضِ وَنَجعَلَهُم أَئِمَّةً وَنَجعَلَهُمُ الوَارِثِينَ)) (سورة القصص ـ5)

ترجمہ : اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا امام بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں۔اور یہ کلام الہی:

((وَجَعَلنَاهُم أَئِمَّةً يَهدُونَ بِأَمرِنَا))(سورة الأنبياء ـ73)

ترجمہ:  اور ہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا  جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے۔نیز یہ کلام الہی :

(وَجَعَلنَا مِنهُم أَئِمَّةً يَهدُونَ بِأَمرِنَا لَمَّا صَبَرُوا))(سورة السجدة ـ 24)

ترجمہ : اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو ائمہ قرار دیا جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے ۔ 

اس جعل الہی سے پہلے چند بنیادی چیزیں ہیں جن کا امامت کے عہدے سے متصف ہونے والے کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم ظلم سے پاک ہونا لازمی ہے اگرچہ اپنے نفس پر ہی کا ظلم کیوں نہ  ہو ،امام کو اس سے منزہ ہونا ضروری ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالم شخص ( اگرچہ اپنے نفس کا ظالم ہو) عہدہ امامت کے اہل نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک عہدہ الہی ہے اور یہ امام کے پاس اللہ کی امانت ہے ۔لہذا ارشاد ہوا:

((وَإِذِ ابتَلَى إِبرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهدِي الظَّالِمِينَ))(سورة البقرة ـ 124) 

ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔" اس لئے کہ اسے اللہ نے لوگوں کی امامت کے لئے چنا ہے اور یہ ایک ضمانت ہے جو امام تمام لوگوں کی طرف سے قبول کرتا ہے۔

((وَمَا كَانَ لِمُؤمِنٍ وَلاَ مُؤمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِيناً))(سورة الأحزاب 36)

.ترجمہ: اور کسی مؤمن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و  رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا ۔

ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ کیوں امام کو صرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہی سے اختیار کیا جاتا ہے کسی اور سے بھی انتخاب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا جواب یہ دیا جائے گاکہ امامت، نبوت کی ہی جانشینی کا نام اور اسی کے راستے کا تسلسل ہے لہذا اہل بیت علیھم السلام کی امامت اسی فریضہ تبلیغ کی تکمیل ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ذمے لے کر آئے تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ (ائمہ اہل بیت ) لوگوں کی ہدایت ان کو اللہ کے دین سمجھانے اور ان کی تبلیغ کرنے اور ان کو ثواب و عذاب کی باتیں بیان کرنے میں  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے  خلفاء اور جانشین ہیں۔ لہذا امامت بھی نبوت کی طرح الہی عہدہ ہے جو اللہ کی جانب سے ہے اور اس کے مقرر فرمانے پر منحصر ہے اس لئے کہ اللہ ہی مخلوقات کے مصالح کا جاننے والا اور جو  ان کی زندگی کے لئے ضروری ہے ان سب احتیاجات کا واقف ہے۔ اسی لئے یہ منصب اللہ کے ہی اختیار میں ہے تاکہ کہیں ان کے عقائد و نظریات انہیں جادہ حق سے خارج نہ کریں۔ اس لئے اللہ سبحانہ و تعالی نے ان لوگوں کے لئے ایسوں کو منتخب فرمایا جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہی راستے پر لوگوں کو چلاسکتے ہوں۔ جب یہ بات طے ہوئی تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ کہ یہ امام پیغمبر کی ذریت میں سے کیوں نہ ہوں ان کا معصوم ہونا اور اللہ کی جانب سے منتخب ہونا دونوں ضروری ہے ۔اس لئے کہ انبیاء ماسلف کی ذریتوں میں سے صرف ان کو ہی ایسا عہدہ ملا ہے جو معصوم تھے اور ان کو اللہ نے برگزیدہ فرمایا تھا ۔

((إِنَّ اللَّهَ اصطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبرَاهِيمَ وَآلَ عِمرَانَ عَلَى العَالَمِينَ))

 ترجمہ : بتحقیق اللہ نے آدم ، نوح ،اور آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کیا ۔

((ذُرِّيَّةً بَعضُهَا مِن بَعضٍ)) (سورة آل عمران ـ 33-34)

ترجمہ : یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے  ۔

خاص طور سے جب یہ انتخاب اللہ حکیم و علیم کی طرف سے ہو تو اس میں کسی قسم کی جانب داری ، حسن نیت (لحاظ ملاحظہ) اور من مانی یا کسی اور سبب مانند نسب ،وراثت وغیرہ کی دخالت نہیں ہوسکتی ۔ یہاں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون اس انتخاب کی اہلیت  کے ساتھ اس اصطفاء و انتخاب کے دوسرے عناصر جو اس میں ضروری ہیں وہ ،  اور دیگر عالی مراتب جو ایک الہی انتخاب کے لحاظ سے  منتخب ہونے والی ہستی میں ہونا چاہئیے ،ان کمالات و اوصاف کا مالک ہے ۔