اسلام اب ان ممالک میں بھی پھیل رہا ہے جہاں اب تک نہیں تھا۔وہ غیر مسلم ممالک جنہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لیے کھول دیے ہیں یا جن ممالک کی طرف ہجرت بہت بڑھ گئی ہے۔ان ممالک میں مسلمان کی آبادی نے نیا رخ لیا ہے جو سیاسی وجوہات،عقیدتی وجوہات یا دینی وجوہات کی بنیاد پر ہجرت کر کے ان ممالک میں پہنچ رہے ہیں۔
ہم آسٹریلیا میں اسلام کی بات کر رہے ہیں۔ہم جن اعداد شمار کو پیش کریں گے وہ آسٹریلیا کی سرکاری یا غیر سرکاری قابل اعتبار تنظیموں کے ہیں۔ایک بات تو طے ہے کہ آسڑیلیا میں اسلام اقلیت میں ہے ۲۰۲۰ کی مردم شماری کے مطابق وہ لوگ جنہوں نے خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے ان کی تعداد دس لاکھ ہے۔جو آسٹریلیا کی کل آبادی کا 4.35 فیصد بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مسلمانوں کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ اضافہ آخری پانچ سال میں بہت زیادہ ہوا ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی ۲۳ فیصد تک بڑھی ہے۔آبادی کا بڑھنا مہاجرین کی زیادہ آمد کا نتیجہ نہیں ہے اگرچہ وہ بھی آئے ہیں۔اس کے کئی اور اسباب بھی ہیں ان میں سے اہم غیر مسلموں کی بڑی تعداد کا اسلام قبول کرنا اور اپنی زندگی کے لیے اسلام کو اختیار کرنا ہے جو ان کے لیے اطمان اور سکون کا باعث ہے۔
اسلام آسٹریلیا میں دوسرا بڑا دین ہے اور اسلام وہاں کے بعض علاقوں میں بہت زیادہ پھیل گیا ہے جیسے کوکوس کلینک کے جزائر میں ایسا ہوا ہے۔
اگر آسٹریلیا میں مسلمان کی آمد کی بات کی جائے تو یہ اتنی نئی بھی نہیں ہے۔انہیں حالیہ زمانہ کی ہجرت سے جوڑنا ممکن نہیں ہے جو دنیا میں دو ہزار کے بعد دیکھنے کو ملی ہیں کیونکہ مسلمان اس سے بہت پہلے کثیر تعداد میں آسٹریلیا میں موجود ہیں۔ایک وقت تھا جب مسلمان آسٹریلیا کی تجارتی نقل حمل میں اہم مقام رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے اونٹوں کے ذریعے مال کی نقل حمل کاآغاز کیا۔مسلمان آسٹریلیا کی طرف بطور تاجر اور سامان کو منتقل کرنے والے کے طور پرآئے تھے اور یہ زیادہ تر انڈونیشیا اور ماکاسار سے آتے تھے۔ان مسلمان نے آسٹریلیا کے اصلی باشندوں پر بہت اچھا اثر ڈالا وہ بہت با اخلاق ،نرم مزاج اور کاربار میں ایمانداری کرنے والے تھے ۔
دنیا میں نسلی تبدیلوں پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق مسلمان ۱۷۸۵ میں آسٹریلیا میں موجود تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیوں حکام نے مسلمان کو وہاں اونٹوں کی تجارت اور سامان کی نقل و حمل کے لیے بلایا تھا بالخصوص آسٹریلیا کے صحراء میں سامان کے نقل و حمل کے لیے ان کو بلایا گیا تھا۔ یہ بھی تھا کہ مسلمان صحراء کو آباد کریں اس مقصد کے لیے افغان اور انڈونیشیا کے لیے سب سے پہلے اس بڑے صحراء میں پہنچے۔دوسری طرف ان مسلمانوں نے آسٹریلوی لوگوں سے بہت اچھا برتاو کیا،مسلمانوں نے بہت زیادہ محنت کی،اسی لیے آسٹریلوی حکام نے ان سے ہزاروں اونٹ طلب کیے۔ یہاں تک کہ آسٹریلوی صحراء آباد ہو گیا اور وہاں سبزہ اور زندگی آ گئی جو ان مسلمان کے ہاتھوں سے ہوا۔ان مسلمانوں کے لیے مساجد اور مدارس بنائے گئے یہاں سے ان مسلمانوں کی زندگی ان کے ساتھ نئے انداز میں شروع ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریلوی معیشت نے بہت زیادہ ترقی کی جس کی وجہ سے آسٹریلوی حکام نے بہت زیادہ مسلمانوں کو ایران،بلقان،ترکی اور دوسرے ایشیائی ممالک سے کام کے لیے طلب کیا۔
۱۹۷۵ میں لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد آسٹریلیا ہجرت کر گئی۔یہ نئے مہاجرین پابند تھے کہ نئے قوانین کے مطابق خاص علاقوں میں محدود رہیں گے ۔تارکین وطن کی نئی پالیسی مل جل کر رہنے کے اور مسلم معاشرے کی ثقافت کے خلاف ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق ریاست نیو ساؤتھ ویلز وہ ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور یہ آسٹریلیا کے تمام مسلمانوں کا (50) فیصد سے زیادہ ہے، اس کے بعد وکٹوریہ (33) فیصد مسلمان رہتے ہیں اور پھر مغربی آسٹریلیا (8) فیصد مسلمان رہتے ہیں اور سب کوئنزلینڈ، جنوبی آسٹریلیا،دارالحکومت ، سڈنی اور شمالی علاقہ، جس کا اختتام تسمانیہ سے ہوتا ہے باقی سب مسلمان وہاں رہتے ہیں۔
آسٹریلوی مسلمانوں کی کل تعداد کا ۳۶ فیصد آسٹریلوی الاصل ہے یہ ایک بڑی تعداد ہے۔مسلمانوں میں لبنانیوں کی تعداد ۱۰ فیصد ہے،مسلمان ترکوں کی تعداد ۸ فیصد ہے،مسلمانون میں افغانوں کی تعداد ۳ فیصد ہے،بلقان میں سے بونسنیا کے ۳ فیصد ہے،پاکستانی ۳ فیصد ہیں،عراقی اور ایرانی دو فیصد ہین اور انڈونیشیا کے تقریبا تین فیصد ہیں اور فجی وہ مسلمان مہاجرین جو فجی اور اس کے اردگرد کے جزائر سے آتے ہیں ان کی تعداد ۲ فیصد ہے۔
آسٹریلیا میں ۵۶ مساجد ہیں سب سے قدیم مسجد لاوات ہے جو ۱۹۴۱ میں بنائی گئی اس کے بعد اور مساجد بھی تعمیر کی گئی ہیں اگرچہ اب اس حوالے سے آسٹریلیا کی مقامی آبادی کی پالیسی سخت ہوئی ہے۔